ہوگی ۔ یہی بات قصہ خضر میں بھی ہے کہ بچہ جو کافر مطبوع تھا ، اس کا تعلق تقدیر سے ہے ، فطرۃ اس کی وہی تھی ، جس میں قبول اسلام کی صلاحیت تھی ۔
پہلے لکھ چکا ہوں کہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کا ارشاد ہے کہ جن اکابر نے فطرۃ کی شرح اسلام سے کی ہے ، ان کا مقصود بھی یہی صلاحیت واستعداد ہے ، سبب پر مسبب کا اطلاق ظاہر ہے کہ رائج ہے ، لہٰذا اگر اسلام کہہ کر صلاحیت اسلام مراد ہو تو کچھ بعید نہیں ، اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو سارا اختلاف ختم ، اور بات یہی جی کو لگتی بھی ہے ، ورنہ وہ تفسیر اشکال سے خالی نہیں ۔ واﷲ أعلم
(۲) ام الزوجہ اور بنت الزوجہ کی حرمت حرمت مصاہرت کے ذیل میں آتی ہے ، حرمت مصاہرت میں دو حکمتیں … والعلم عند اﷲ … محسوس ہوتی ہیں ۔ ایک تو وہ جس کو تم اصول فقہ اور فقہ میں پڑھ چکے ہو کہ ولد کے واسطے سے مردوعورت ایک دوسرے کے جز ہوجاتے ہیں ، اور پھر یہ جزئیت متعدی ہوکر دونوں کے اصول وفروع کو بھی اپنے دائرہ میں سمیٹ لیتی ہے ، اور اپنے اجزاء سے نکاح ظاہر ہے کہ ناجائز ہے ۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر یہ حرمت ثابت نہ ہوتو معاشرہ تباہ ہوکر رہ جائے گا ، تفصیل اس کی یہ ہے کہ نکاح کے بعد ظاہر ہے کہ دوخاندانوں میں نہایت قریبی تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں ، قرابت داری کی وجہ سے آپس کا اختلاط ناگزیر ہے ، ایسی صورت میں اگر ام الزوجہ وبنتہا کے سامنے حرمت کی دیوار کھڑی نہ کردی جائے تو شوہر کو بیوی کی ماں یااس کی بیٹی کی طرف بھی رغبت ہوسکتی ہے ، اور اس رغبت کے نتیجے میں نیا تعلق قائم کرنے کے لئے پرانے تعلق کو توڑنے اور ختم کرنے کی کوشش ہوگی ، اور یہ بات خوب معلوم ہے کہ جنسی بنیادوں پر جو محبت قائم ہوتی ہے وہ ہر ناکردنی کو کردنی بنادیتی ہے ۔ پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماں بیٹی کے درمیان سخت عداوت اور کشمکش پیدا ہوتی ،