وَأَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانْ إِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً ۔
اس آیت میں امانت سے مراد کیا ہے ؟ کیا اسلام ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں ، ورنہ لیعذب اﷲ المنافقین والمنافقات والمشرکین والمشرکات والی بات بے ربط ہوکررہ ہوجائے گی ، کیونکہ اس امانت کوتو تمام انسانوں نے قبول کیا ہے ، ہر انسان اس امانت کو لے کر پیدا ہوتا ہے ، اور محض بے اختیاری امر ہے ، تکویناً اس کا بار اٹھالینے کے بعد کوئی اس کو خود سے پھینکنا چاہے ، تو ممکن نہیں ہے ۔ ناچار یہی کہنا پڑے گا کہ اس سے وہی استعداد مراد ہے ، جس کی تعبیر دوسری آیت میں فطـرۃ اﷲ سے کی گئی ہے ، غرض اس آیت میں امانت اور سابق آیت میں فطرۃ، دونوں کا مصداق واحد ہے ۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ فطرۃ ایک امر تکوینی ہے ، جس کے سلسلے میں انسان صاحب اختیار نہیں ہے ، لہٰذا اس پر کسی حکم شرعی کا مدار نہیں ہے ، اور نہ اس خلق میں کسی تبدیلی کا امکان ہے ، جو لوگ کفر میں مبتلا ہوتے ہیں ، ان کی استعداد بھی فنا نہیں ہوتی ، حدیث میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ بعض مومن پیدا ہوتے ہیں اور بعض کافر ، اس کے متعلق پہلے مکتوب میں کچھ لکھ چکا ہوں ۔
اس سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ اس کا تعلق فطرۃ اور استعداد سے نہیں ہے ، بلکہ اس کا تعلق تقدیر سے ہے ، یعنی انسان کے تقدیری اطوار کا اس میں ذکر ہے کہ بعض لوگوں کی تقدیر میں ابتدا سے انتہا تک اسلام ہی اسلام ہے اور بعض لوگوں کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ پیدا ئش سے پہلے ہر انسان کے متعلق فرشتہ حق تعالیٰ سے دریافت کرکے شقی یا سعید لکھ دیتا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ مقدر کی تحریر ہے ، فطرۃ سے اس کا کوئی تصادم نہیں ہے ۔ فطرت اب بھی وہی ہے ، خارجی عوامل نے اِدھر اُدھر ڈال دیا ہے ۔ ہاں اگر فطرت سے مراد اسلام ہو تو ضرور دشوار ی