کی ہے ، اس سے یہ کچھ ضروری نہیں کہ لازماً اسے اسلام ہی ماناجائے ، ظاہر ہے کہ جو چیز قبول اسلام کی بنیاد اور اس کا مقدمہ ہوگی ، وہ بھی کچھ کم قابل مدح وستائش نہ ہوگی ، اور یہ جو کہاگیا کہ رسول اﷲ ا کو اس کے التزام کا حکم ہوا ، ا س لئے وہ اسلام ہی ہوسکتا ہے ، اس پر عرض ہے کہ اس التزام کا مطلب یہ ہے کہ اس استعداد کو خارجی مضر اثرات سے بچایا جائے ، اور کیا حرج ہے کہ الدین القیم سے اشارہ فأقم وجھک للدین حینفاً میں مذکور الدین ہو ، اور ماناکہ الدین القیم کا مصداق فطرۃ اﷲ ہی ہے ، جب بھی اس سے مراد دین اسلام ہونا متعین نہیں ہے ، دیکھو حق تعالیٰ فرمایا ہے کہ : إِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدِ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَھْراً فِیْ کِتَابِ اﷲِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ، ظاہر ہے کہ سال کا بارہ مہینوں پر مشتمل ہونا از قبیل تکوینیات ہے ، احکام شرع میں اس کا شمار نہیں ہے ، لیکن اسے بھی حق تعالیٰ نے دین قیم فرمایا ہے ، اس سے بھی معلوم ہواکہ کسی امر کو محض دین قیم کہہ دینے سے لازم نہیں آتا کہ وہ بس دین اسلام متعین ہے ، دین قیم کا اطلاق تکوینی امور پر بھی ہوتا ہے ۔ فطرۃ اور استعداد تکوینی امور میں سے ہے ، اس پر دین قیم کا اطلاق اسی لحاظ سے ہے ، حدیث میں حنفاء مسلمین جو فرمایا گیا ہے اس سے صلاحیت کا اظہار مقصود ہے ، اس میں بھی اشارہ یہی ہے کہ انسان اپنی اصل سرشت کے لحاظ سے کفر وشرک کے عیب سے بری ہوتا ہے ، پھر شیاطین گھیر گھار کر اپنی طرف لے جاتے ہیں ، حدیث فطرت میں الفطرۃ کا تقابل یہودیت وغیرہ سے نہیں ہے ، ورنہ ہر کافر پر ارتداد کا حکم لگتا ، بلکہ خارجی موثرات وعوامل کے عمل کا اظہار ہے ۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ایک اور آیت پر غور کرو ، حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : إِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَھَا