کرے گا ، گویا یوں سمجھو کہ انسان اپنی پیدائشی حالت میں ایسی کیفیت لے کر آیاہے کہ اس میں کفر وشرک کی آلودگی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا ، اور انسان کی اصلی حالت یہی ہے ، پھر اس کے گھر والے اور اس کا ماحول اس کی اصلی حالت زائل کرکے غیر فطری حالات اس پر مسلط کردیتے ہیں ، یہ استعداد مدارِ تکلیف نہیں ہے ، اور اس استعداد کا شمارا حکامِ شرعیہ میں سے نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک تکوینی محسوس حالت ہے ، چنانچہ اس کو سمجھانے کے لئے رسول اﷲ ﷺ نے جو مثال بیان فرمائی ہے ، اس پر غور کرو ۔ فرماتے ہیں کہ جانور کا بچہ دیکھو کہ کیسا صحیح وسالم ، عیوب سے پاک پیدا ہوتا ہے ، کیا کبھی کسی بچہ کو پیدائشی طور پر کان کٹا ہوا دیکھتے ہو ؟ بعد میں لوگ کان کاٹ دیتے ہیں ، گویا اسلام اس کی اصل اور اندرونی استعداد ہے ، اور کفر وشرک بیرونی موثرات ومحرکات کا نتیجہ ؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ فطرۃ وہ استعداد ہے ، جس میں قبول اسلام کی صلاحیت اصلی اور بغیر کسی خارجی وعامل ومؤثر کے ہے ، اور قبول کفر کی صلاحیت عارضی اور خاجی عوامل واسباب کے زیر اثر ہے ۔
مسلم شریف میں ایک روایت نقل کی گئی کہ آنحضور انے ایک شخص کی آواز سنی ، جو اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہہ رہا تھا ، آپ نے فرمایا کہ علی الفطرۃ ، پھر اس نے کہا أشھد أن لاإلہ إلاا ﷲ تو آپ نے فرمایا کہ خرجت من النار ، بعد میں لوگوں نے دیکھا تو وہ ایک چرواہا تھا ، دیکھو رسول اﷲ ا نے محض اﷲ اکبر کی صدا سن کر اس کے فطرۃ پر ہونے کی گواہی دی ، لیکن نجات کی بشارت اس وقت دی جب اس سے کلمہ ٔ توحید سن لیا ، اس سے معلوم ہوا کہ فطرت اوراسلام میں فرق ہے ، مدارِ نجات فطرت نہیں اسلا م ہے ۔
اب غور کروکہ آیت کریمہ میں فطرۃ کی اضافت جو حق تعالیٰ نے اپنی جانب