کے جنتی ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
(۳) حدیث خضر میں بچہ کاکافر مطبوع ہونا مصرح ہے ۔
(۴) حق تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں فرمایا ہے کہ لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲِ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حالت پر خدا نے پیدا کردیا ہے ،ا س میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ، حالانکہ حدیث میں صراحۃً تبدیلی کا ذکر موجود ہے ، اور مشاہد بھی یہی ہے ، ہاں اگر اس کو نہی قرار دیا جائے تو معنی درست ہوسکتا ہے ، لیکن یہ تکلف ہے ۔
(۵) اگر اسلام پیدائشی اور جبلی امر ہے ، تو ظاہر ہے کہ بندے کے اختیار سے نہیں ہے ۔ اس کے ارادہ واختیار کے بغیر اسلام اس کی سرشت میں داخل کردیا گیا ہے ، اور یہ بدیہی ہے کہ سزاوجزا کا مدار اختیار پر ہے ، پھر چاہئے کہ اسلام پر اس کو کوئی اجر وثواب نہ ہو ۔
یہ اشکالات ہیں ، جن کی بنا پر فطرۃ سے عین دین اسلام مراد لینا ایک مشکل مسئلہ ہے ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں اس موضوع پر نفیس بحث کی ہے ، فرماتے ہیں کہ : فالصواب عندی أن الفطرۃ من مقدمات الاسلام لاعینہ فھی جبلۃ متھیئۃ لقبول الاسلام، وبعبارۃ أٔخریٰ ھی استعداد فی الولد، لہ بعد من الکفروقرب من الایمان، وبعبارہ أخریٰ ھی عبارۃ عن خلوبنتیہ عما یحثہ علی الکفر ولولا القوادح والموانع لبقی أقرب إلی الایمان الخ ج: ۲ ، ص: ۴۸۵۔
حاصل یہ ہے کہ فطرۃ عین اسلام نہیں ہے ، بلکہ اسلام کی وہ استعداد ہے ، جو ابتداء آفرینش ہی سے انسان کی نہاد میں رکھ دی گئی ہے ، اگر خارجی اسباب وعوامل نہ ہوں ، اور انسان اپنی خلقی حالت پر قائم رہ جائے تو اپنے اختیار سے وہ اسلام ہی کو پسند