(۴) ایک حدیث میں ہے کہ : إنی خلقت عبادی حنفاء کلھم فاجتالتھم الشیاطین عن دینھماورروایتوں میں حنفاء کے بعد مسلمین کا لفظ بھی آیا ہے ۔ یہ حدیث صراحۃً اس پر دلالت کرتی ہے کہ حدیث سابق میں الفطرۃ سے مراد اسلام ہی ہے۔
(۵) حدیث فطرۃ میں الفطرۃ کے بعد یہودیت ، نصرانیت اور مجوسیت کا تقابلاً ذکر آیا ہے اور یہ تینوں فرقے مذاہب ہیں ، اس لئے صحت تقابل کے واسطے ضروری ہے کہ الفطرۃ سے دین اسلام مراد لیاجائے ۔
یہ خلاصہ ہے ، ان حضرات کے دلائل کا ، جو فطرت سے عین اسلام مراد لیتے ہیں ، ان دلائل کی حقیقت تو بعد میں واضح ہوگی ، پہلے اشکال سنو !
(۱) اگر یہ صحیح ہے کہ ہر بچہ خلقۃً مسلمان ہوتا ہے ، تو سمجھ آنے کے وقت اس کو مسلمان قرار دینا چاہئے ، فرض کرو کوئی اسلامی حکومت ہوتو اس کی غیر مسلم رعایا کے بچوں کو مسلمان مان کر مسائل کو اسی بنیاد پر متفرع کرنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر یہ بچہ ناسمجھی کے زمانہ میں مرجائے تو اس کا ترکہ اس کے والدین کو ، یا اس کے برعکس صورت میں والدین کا ترکہ اس کو نہیں ملنا چاہئے ، کیونکہ اختلافِ دین کی صورت میں توارث جاری کرنا ممکن نہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ بعض علماء نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اس حدیث کا تعلق حکم دنیوی سے نہیں ہے ، حکم اُخروی سے ہے ، لیکن اس تخصیص کی دلیل کیا ہے ؟
(۲) اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس کا تعلق محض حکم آخرت سے ہے ، تو بالفرض اگر کافر کا بچہ مرجائے تو اسے قطعیت کے ساتھ جنتی کہنا چاہئے ، حالانکہ حدیث میں ہے : سئل رسول اﷲ ﷺ عن أولاد المشرکین فقال : اﷲ إذ خلقھم أعلم بما کانوا عاملین ( بخاری ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قطعیت کے ساتھ ان