یولد علی الفطرۃ فأبواہ یھودانہ أوینصرانہ أویمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء ھل تحسون فیھا من جدعاء ثم یقول: فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ( متفق علیہ )
صاحب فتح الباری نے لکھا ہے کہ أجمع أہل العلم بالتاویل علی أن المراد بقولہ تعالیٰ (فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ) ’’ الاسلام ‘‘ج: ۳، ص:۲۴۸۔ پوری آیت یوں ہے :فَأَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اﷲِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ۔
اب سنو! حدیث میں جوالفطرۃ کا لفظ آیا ہے ، وہ یہی ہے ، جس کو آیت قرآنی میں فطرۃ اﷲ کہا گیا ہے ۔ اسی کے سلسلے میں حافظ الدنیا ابن حجر نے اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے ، کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ اس کی دلیل میں چند باتیں کہی گئی ہیں ۔
(۱) آیت کریمہ میں فطرۃ کی اضافت اﷲ کی جانب کی گئی ہے ، اس میں اشارہ اس کے مدح وکمال کی جانب ہے ، ظاہر ہے کہ اس مدح کا مستحق اسلام ہی ہوسکتا ہے ، محض استعداد کی مدح کیا معنی رکھتی ہے ؟
(۲) اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ ا کو اس کے التزام اور اہتمام کا حکم دیا ہے ، چنانچہ فطرۃ اﷲ جو منصوب ہے ، اس کا عامل ألزم مقدر ہے ، اور اس پر لفظ أقم دلالت کرتا ہے ، اور ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اﷲ ا کو جس کے التزام کا مکلف بنایا گیا ہے ، وہ اسلام ہی ہے ۔
(۳) اسی آیت میں اس کو دین قیم فرمایا گیا ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔