کی ایک دنیا روشن ہوجاتی ہے ، بہت اہتمام سے ’’ایمان ‘‘ کو بچائے رکھو ، اﷲ تعالیٰ سے ہمیشہ التجاء وزاری قائم رکھو کہ اﷲ ایمان کو قائم ودائم رکھیں ۔
(۴) فطرت سے مراد ’’ استعداد ‘‘ ہے ، جس میں ایمان کی صلاحیت ہوتی ہے ، بعضوں کی استعداد میں رجحان کفر کی جانب ہوتا ہے اور بعضوں کی فطرت میں رجحان ایمان کی جانب ہوتا ہے ، اس صلاحیت کو فعلیت میں لانے والی چیز ماحول اور معاشرہ ہوتاہے ، مسلمان ہوکر پیدا ہونے کا مطلب یہی ہے کہ ان میں استعداد اسلام کی غالب ہوتی ہے ۔ کافر ہوکر پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں استعداد کفر کی غالب ہوتی ہے ۔ ایک مطلب اور ذہن میں آرہا ہے لیکن حدیث کے الفاظ سامنے ہوں تو اسے لکھوں ، تم دوسرے خط میں الفاظ نقل کرکے بھیج دو۔
آخری حدیث کا مطلب دوسری صحبت کے لئے اٹھارکھو، اس پر موقع ملا تو مفصل کلام کروں گا کہ میرا اصل موضوع وہی ہے ، ویسے اس کا خیال رکھو کہ ایک خط میں ایک ہی سوال لکھا کرو ! تاکہ تفصیل سے اس کا جواب قلمبند ہوسکے ، میں لکھتے لکھتے اکتا جاتا ہوں ۔ ایک ہوگاتو سیر حاصل بحث ہوسکے گی ، تمہارا ہر سوال مستقل ایک مقالہ چاہتا ہے اور جی بھی یہی چاہتا ہے ، اس طرح ایک علم مدون ہوجائے گا ، لیکن کئی سوال ہونے کی وجہ سے سب کو سمیٹنا پڑا ۔ اب اگلے خط میں ایک ہی بات لکھو، انشاء اﷲ اس کا مفصل جواب تحریر کروں گا۔
احمد سعید کو ایک خط میں نے تقدیر کے مسئلے پر لکھا تھا ، اسے دیکھو اور سمجھ لو۔
تمہارے خط میں ایک جملہ یہ ہے کہ ’’ حضرت موسیٰ ں نے حضرت آدم ں کو مجرم قرار دینے کی کوشش کی ‘‘ یہ تعبیر سخت ناگوار ہے ، اس قسم کی تعبیر اکابر کے سلسلے میں لکھنے سے احتراز کرو، اس کو تم یوں لکھ سکتے تھے کہ ’’حضرت موسیٰ ں نے