ہر طرح کاتصرف کیوں جاری کیا ہے ؟ تصرف کا ایک ہی رخ کیوں نہیں رکھا؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال بیجا ہے ، جن کو ایمان حق تعالیٰ کی مہربانی سے نصیب ہوگیا ہے ، وہ خیر منائیں ، اﷲ کاشکر ادا کریں ، سوالات کی راہ چھوڑدیں ، بہت خطرہ ہے ، خدا کی بے نیازی کاہاتھ کہیں بھی پہونچاسکتا ہے ۔ خدا، خدا ہے ، اگر وہ ہر طرح کا تصرف اپنی مخلوق میں نہ کرے تو یہ اس کے نقص کی دلیل ہے ، اس لئے جو کچھ کرتے ہیں کرنے دو، اپنی فکر میں رہو ، وہی کافی ہے۔
(۳) حضرت مجدد صاحب کے واقعہ کا تعلق کشف سے ہے ، اس شخص کا ابتدائی حال ان پر منکشف ہوا تھا جس کا اظہار انھوں نے کیا ، ابھی ان پر یہ منکشف نہں ہواتھا کہ انھیں کی دعاء سے اسے دوبارہ ایمان نصیب ہوگا ، یہ تبدیلی بھی تقدیر کی تحریر میں موجود تھی ، مجدد صاحب پر مکشوف نہ تھی ۔ آج ایک شخص کو تم فاسق وفاجر دیکھتے ہو ، کل وہ ولی کامل ہوجاتا ہے تو کیا اس کی تقدیر بدل گئی ،تقدیر نہیں بدلی ، یہ سب احوال تقدیر میں مرقوم تھے ۔ اپنے اپنے وقت پر ان کا ظہور ہوا ، اسی طرح سمجھ لو کہ وہ شخص مومن تھا لیکن اس کے اندر استعداد کفر کی موجود تھی ، وہی استعداد ــ’’کا فر ‘‘ کی تحریر کی شکل میں مکشوف ہوئی ، پھر یہ بھی تحریر تھا کہ اس کی یہ استعداد حضرت مجدد صاحب ہی کی دعاء سے مٹ جائے گی اور اس کے لئے ان کے فرزندوں کا اصرار باعث ہوگا ۔ یہ ساری باتیں منکشف نہ تھیں ، پس جب یہ افعال ظہور میں آگئے تو اس کی یہ استعداد مٹا دی گئی ، اور پھر اس کا انکشاف ہوگیا ، اور یہ سب حق تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر مبنی ہے ، اس کا موقع تحریر نہیں ہے ، اس کے لئے صحبت شرط ہے ، عجیب وغریب رموزواسرار ہیں ، اگر اطمینان کی ملاقات ہوتی تو کچھ بتاتا ، انھیں حقائق کے تسلیم کرنے کا نام ایمان ہے ، فہم سے بالاتر ہیں ، لیکن جب ان میں سے کسی حصہ کا نزول فہم میں ہوتا ہے تو علم ومعرفت