سے کبھی کبھی ہوتا ہے ،پھر امت اس پر مواظبت کرتی ہے، ‘(فیض الباری ج ۴ ص ۴۱۷)
اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کے بعد دعاء کا ثبوت ہے ، اور تواتر کے ساتھ ہے ، لیکن ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ایک یادوبار ثابت ہے ، اور مستحبات میں ایک بار یا دوبار ثبوت ہوجائے تو اس پر دوام اور مواظبت کی جاسکتی ہے ،ہاں اتنا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کا تارک ملامت کا مستحق ہوجائے ، بس یہ ہے فیصلہ کی بات ! اب اگر کسی کے خیال میں بات دوام اور مواظبت سے آگے بڑھ چکی ہے تو اسے کبھی کبھی یہ عمل ترک کردینا چاہئے، اور بلاشبہ دعاء بعد الصلوات کے سلسلے میں اسی قسم کا رجحان بناہوا ہے ۔ اﷲتعالیٰ حفاظٹ فرمائیں ۔
(۲) اکل شجرہ کے سلسلے میں حضرت آدم ں سے دومرتبہ سوال ہوا ہے ۔ ایک بار حق تعالیٰ نے سوال کیا تو اس کے جواب میں عرض کیا ربنا ظلمنا أنفسنا الخ ، اور ایک بار حضرت موسیٰ ں نے سوال کیا تو جواب وہ دیا جو تم نے نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کے پاس دوسرا جواب نہیں چل سکتا ۔ جوابات کے اس فرق میں ایک بڑا نازک اور لطیف راز ہے ، جس کے تحریر کی اس وقت فرصت نہیں ہے ، کبھی فرصت ملی تو انشاء اﷲ لکھ دوں گا ۔ ابھی تو اپنے سوال کا جواب سنو!
یہاں تقدیر کی تحریر کی بنیاد پر کوئی سوال ہرگز نہیں پیدا ہوتا ، کہ جب آپ نے میرا کفر لکھ دیا تھا تو مجھے عذاب کیوں دیا جارہا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ جیسے کفر لکھ دیا تھا اور اسی لکھنے کی وجہ سے تم نے کفر کیاتو ہم نے عذاب بھی تو لکھا تھا ، اسی لکھنے کی وجہ سے جہنم میں جاؤ، ہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ایسا لکھا ہی کیوں ؟ کیوں نہیں سب کو جنتی لکھ دیا؟ تو یہ سوال درحقیقت خدا کی خدائی پر اعتراض ہے ، جس کی مجال کسی بندے کو نہیں ؟ اس کا حاصل تو یہ ہے کہ آپ خدا کیوں ہوئے ؟ اور آپ نے مخلوق میں