وادعیٰ ابوعمروالزاھد انہ لایقال (الدبر) بالضم إلا للجارحۃ ورد بمثل قولہم أعتق غلامہ عن دبر (فتح الباری ،ج:۲،ص: ۳۲۸)
دبر سے حیوان کاپچھلا حصہ ہی مردالینا اور اس کے ماسوا کی نفی کرنا زیادتی کی بات ہے ، آخر أعتق غلامہ عن دبرکا کیا مطلب ہے ؟
ان حضرات کے دعووں سے مرعوب نہ ہو ، ایسی نہ جانے کتنی روایتیں ہیں جو صراحۃً اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فرض نمازوں کے بعد آنحضرت ا نے دعائیں کی ہیں ، اور کرنے کی ترغیب دی ہے ، اس لئے اگر یہ منقول نہیں ہے کہ اجتماعاً لوگوں نے دعاء کی ہے تو کچھ حرج نہیں ہے ، صراحۃً اور عبارۃً گو منقول نہیں ہے ،لیکن دلالۃً اور التزاماً منقول ہے، اور جانتے ہوکہ دلالۃ النص کی بھی حیثیت ہوتی ہے۔
اب دوسری بات علامہ انور شاہ کشمیری کی سنو! فرماتے ہیں :
’’لا ریب ان الادعیۃ دبرالصلوٰۃ قدتواترت تواتراً لا ینکرا ما رفع الایدی فثبت بعد النافلۃ مرۃ او مرتین فالحق بہا الفقہاء بعد المکتوبۃ ایضاً وذہب ابن تیمیۃ وابن قیم الی کونہ بدعۃ بقی ان المواظبۃ علی امر لم یثبت عن النبی ا إلامرۃ او مرتین کیف ہی؟ فتلک ہی الشاکلۃ فی جمیع المستحبات فانہا تثبت طوراً فطوراً ثم الامۃ تواظب علیہا ۔‘
حاصل یہ ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کرنا ایسے تواتر سے ثابت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،باقی ہاتھوں کا دعا میں اٹھانا تو نفل کے بعد ایک یا دومرتبہ ثابت ہے، فقہا نے اسی قیاس پر فرض نمازوں کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے کو ملحق کیا ہے، اور علامہ ابن تیمیہ اورعلامہ ابن قیم اسے بدعت قرار دیتے ہیں ۔
رہا یہ مسئلہ کہ جو عمل رسول اللہا سے ایک یا دوبار ثابت ہے اس پر دوام کرنا کیسا ہے؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ تمام مستحبات کے اثبات کا یہی طریقہ ہے کہ ان کا ثبوت حضور اکرم ا