امام احمد، امام ترمذی، امام نسائی نے نقل کی ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(۳) حضرت سعد ص سے بھی اس سلسلے میں ایک روایت منقول ہے، جو قریب ہی باب التعوذ من البخل میں آرہی ہے، اس کے بعض طرق میں مطلوب موجود ہے۔
(۴) حضرت زید بن ارقم ص فرماتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ا کو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے سنا: اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَئْیٍ اسے امام ابو دائود اور امام نسائی نے نقل کیا ہے۔
(۵) حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دعا کرتے: اللہم اصلح لی دینی الخ اسے امام نسائی نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور ابن حبان وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ حدیث میں آئے ہوئے لفظ دبر کے معنی نماز کے اخیر کے قریب والا جز ہے، یعنی تشہد کے بعد کا حصہ، مطلب یہ ہے کہ یہ دعائیں نماز کے آخر ی جز میں پڑھی جائیں گی ، نہ کہ نماز کے بعد۔
تو ہم کہیں گے کہ احادیث میں بعض اذکار کے متعلق حکم ہوا ہے کہ انہیں دبر کل صلوٰۃ پڑھا جائے، اور وہاں بالاجماع نماز کے بعد مراد ہے، اسی طرح ان دعائوں کے بارے میں بھی یہی کیا جائے گا کہ نماز کے بعد کی جائیں گی، جب تک اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے۔
دیکھتے ہو،حافظ ابن قیم کا دعویٰ کیاتھا ، اور ان حدیثوں سے ان کا دعویٰ کس طرح رَدہورہا ہے ، دبر کو خوامخواہ دبرحیوان سے مشتق ماننے کی کیا ضرورت ہے ۔ احادیث میں صرف دبر ہی کا لفظ تو نہیں آیا ہے ۔ بخاری شریف میں باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں خلف کل صلوٰۃ کا لفظ آیا ہے ، صاحب فتح الباری نے بخاری ہی کی ایک روایت کے سلسلے میں اثر کل صلوٰۃ کا لفظ نقل کیا ہے ، بتاؤ کہ دبر کل صلوٰۃ سبحان اﷲ الحمد ﷲ اﷲ اکبرجوپڑھنے کا حکم ہے وہ نماز کے اندر ہے یا باہر؟ صاحب فتح الباری تو اس پر اجماع قرار دیتے ہیں کہ اس کا تعلق نماز کے بعد سے ہے ، فتح الباری کی ایک عبارت دیکھو: