خلفاء نے یہ عمل کیا ، نہ کسی نے امت کی اس کی جانب رہنمائی کی ، اﷲ اکبر کتنا بڑا دعویٰ ہے ، اب سنو صاحب فتح الباری کااس پر انتقاد :
قلت: وما ادعاہ من النفی مطلقاً ، مردود، فقد ثبت عن معاذ بن جبل ان النبی ا قال لہ: یا معاذ انی واﷲ احبک فلا تدع دبرکل صلـوٰۃ ان تقول:اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ، اخرجہ ابو داؤد والنسائی وصححہ ابن حبان والحاکم وحدیث أبی بکرۃ فی قول اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، کان النبی ا یدعو بہن دبر کل صلوٰۃ اخرجہ احمد والترمذی والنسائی وصححہ الحاکم وحدیث سعد الآتی فی باب التعوذ من البخل قریباً فان فی بعض طرقہ المطلوب وحدیث زید بن ارقم : سمعت رسول اﷲ ا یدعو فی دبر کل صلوٰۃ: اللہم ربنا ورب کل شئی الحدیث اخرجہ ابو داؤد والنسائی وحدیث صھیب رفعہ کان یقول اذا انصرف من الصلوٰۃ: اللہم اصلح لی دینی الحدیث اخرجہ النسائی وصححہ ابن حبان وغیرہ
فان قیل: دبر کل صلـوٰۃ قرب اخرہا وھو التشہد: قلنا قد وردالامر بالذکر دبر کل صلوٰۃ والمراد بہ بعدالسلام اجماعاً فکذا ہذا حتی یثبت ما یخالفہ۔
فرماتے ہیں کہ حافظ ابن قیم نے نمازوں کے بعد دعا کرنے کی جو مطلقاً نفی فرمادی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
(۱) کیونکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ان سے رسول اللہا نے فرمایا کہ اے معاذ! واللہ مجھے تم سے محبت ہے پس کسی نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ چھوڑنا: اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ، یہ روایت ابو دائود اور نسائی میں موجود ہے، اور اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
(۲) حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسو ل اللہ ا ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ یہ روایت