بہا ویدعو بما شاء، ویکون دعاء ہ عقب ہذہ العبادۃ الثانیۃ لا لکونہ دبرالمکتوبۃ۔ (فتح الباری کتاب الدعوات ج ۱۱ ص ۱۶۰)
حاصل اس عبارت کا یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو بیٹھے بیٹھے دعا کرنا خواہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو، یہ سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ہے، اور نہ آپ سے کسی صحیح ، یا حسن سند کے ساتھ مروی ہے، بعض لوگوں نے اس دعا کو نماز فجر اور نماز عصر کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کیا ہے، نہ آپ کے بعد خلفاء راشدین نے کیا ہے اور نہ ہی آپ نے اپنی امت کو اس کی ہدایت فرمائی ہے، یہ بعض حضرات کا استحسان ہے انہوں نے اسے سنتوں کے عوض میں تجویز کیا ہے، یعنی عصر اور فجر کے بعد چونکہ کوئی سنت نماز نہیں ہے، اس لئے اس کے عوض میں لوگوں نے دعا کو تجویز کردیا۔
فرماتے ہیں کہ نماز سے متعلق جتنی دعائیں منقول ہیں انہیں آپ نے نماز کے اندر کیا ہے اور اسی میں ان کا حکم دیا ہے، علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ یہی بات نمازی کے حق میں مناسب بھی ہے کیونکہ وہ اپنے رب کی طرف بالکلیہ متوجہ ہے، اس سے مناجات کررہا ہے، پھر جب سلام پھیرتا ہے تو اس کی مناجات منقطع ہوجاتی ہے، اور قرب کا وہ مقام جو نماز کے اندر اسے حاصل تھا، ختم ہوجاتا ہے، تو کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ جب وہ قرب ومناجات کے حال میں تھا، اور بالکلیہ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ تھا تب تو سوال ودعا نہ کرے اور جب اس سے فارغ ہوگیا، تب دعا کرنا شروع کرے۔
البتہ خاص خاص اذکار جو فرض نماز کے بعد وارد ہیں ، انہیں جو پڑھنا چاہے اس کے لئے مستحب ہے کہ ان اذکار سے فارغ ہونے کے بعد نبی ا پر درود بھیجے اور جو چاہے دعا کرے۔ اس کی یہ دعا اس دوسری عبادت یعنی اذکار مسنونہ کے ورد کے بعد ہوگی، فرض نماز کے بعد ہونے کی وجہ سے نہیں ۔
دیکھواس میں علامہ ابن قیم نے مطلقاً نماز کے بعد دعاء کی نفی کردی ہے ، خواہ امام ہو ،خواہ مقتدی ، خواہ منفرد ، فرض ہو یا نفل ، پھر یہ کہ رسول اﷲ ا کا یہ طریقہ سرے سے تھا ہی نہیں ،اس کے لئے نہ صحیح ، نہ حسن ، نہ فعلی نہ قولی کوئی روایت ثابت ہی نہیں ، نہ