سے بہت مسرت ہوئی ، دعا والا مضمون اشکال رفع کرنے کی غرض سے لکھا ہی نہ گیا تھا، بلکہ غور وفکر کا ایک دروازہ کھولاگیا تھا ، اب اگر تمہارا اشکال رفع نہ ہواتو اس میں کچھ تمہارے قصورِ فہم کودخل نہیں ہے ، دعاء بعد الصلوات کاالتزامی پہلو ہے ہی کچھ ٹیڑھا سا، اس التزام واہتمام کے باعث اس کو اگر کوئی بدعت کہے تو کچھ بے جا نہیں ہے ، لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علماء کا سوادِ اعظم ہمیشہ اس پر عامل رہا ہے اور مانعین شاذ ہوئے ہیں تو بدعت کہنے کی ہمت نہیں ہوتی ، اسی جانب میرے خط میں اشارہ ہے ، اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم دونوں نے ایسی باتیں اپنے مسلمہ تشدد ، حدت مزاجی اور مخصوص ادعائی ذہن کی بناء پر کہہ ڈالی ہیں ، جو کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں ، مثلاً دبر صلوٰۃ کو انھوں نے جزوِ صلوٰۃ کہا ہے ، یہی بات حافظ ابن قیم نے لکھی ہے ، لیکن جس کی نظر محض بخاری شریف پر ہوگی وہ اسے رد کردے گا ۔ حافظ ابن قیم کی عبارت صاحب فتح الباری نے نقل کی ہے ، ذرا ان کا ادعائی تیور ملاحظہ کرو، جب شاگرد کا یہ حال ہے جو نسبتاً معتدل مزاج ہیں ، تو استاذ کاانداز کیا ہوگا۔ الھدی النبوی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں :
واماالدعاء بعدالسلام من الصلوٰۃ مستقبل القبلۃ سواء الامام والمنفرد والماموم فلم یکن من ھدی النبیا اصلاً ولا روی عنہ باسناد صحیح ولا حسن وخص بعضہم ذالک بصلاتی الفجر والعصر ولم یفعلہ النبیا ولا الخلفاء بعدہ ولا ارشد الیہ امتہ وانما ہو استحسان رآہ من راہ عوضاً من السنۃ بعدہما۔ قال: وعامۃ الادعیۃ المتعلقۃ بالصلوٰۃ انما فعلہا فیھا وامر بہا فیہا، قال: وہذہ اللائق بحال المصلی فانہ مقبل علی ربہ مناجیہ، فاذا اسلم منہا انقطعت المناجاۃ وانتہی موقفہ وقربہ فکیف یترک سوالہ فی حال مناجاتہ والقرب منہ وہو مقبل علیہ، ثم یسأل اذا انصرف عنہ، ثم قال: لکن الاذکار الواردۃ بعدالمکتوبۃ یستحب لمن اتی بہا ان یصلی علی النبی ا بعد ان یفرغ