دیکھتے ہو ! اگر کسی بڑے منکر میں پڑجانے کا اندیشہ ہوتو چھوٹے منکر کو گوارا کیا جاسکتا ہے ، اس زمانہ میں شقاق ونزاع سے بڑھ کر کیا منکر ہوگا ؟ مجھے اندیشہ ہے بلکہ یقین ہے اور مسلمانوں کے مزاج کا تجربہ کرنے کے بعد عین الیقین ہے کہ اگر اس عمل کو بدعت اور منکر بنا کر پیش کیاگیا تو نزاع کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی ، ہاں اگر بدعت اس قسم کی ہے ، جس کا اوپر تذکرہ ہوا وہ یقینا خلاف وشقاق سے بہت زیادہ اشد ہے ، کیونکہ ان اقسام میں مغیبات کے سلسلے میں ایسا اعتقاد پایا جاتا ہے ، جس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں ہے ، اس لئے حتی الامکان دل آزاری اور نفسانیت سے بچتے ہوئے اور دائرۂ اعتدال میں رہ کر ان کا رد وانکار ضروری ہے، یہ دوسری وجہ ہے ۔
تیسری وجہ کا بھی استطراداً تذکرہ کردوں ، وہ یہ کہ میری حیثیت کیا ہے ، جواس قسم کے مسائل پر زبان کھولوں ، یا قلم کو کام میں لاؤں ، تم لوگ مجھے جو چاہو سمجھو ، مگر دنیا مجھے کیا حیثیت دے گی ، خوب معلوم ہے ، اس لئے کف لسان ہی مناسب ہے ہر مردے وہر کارے ، ایاز قدرِ خویش بشناس۔
سوچا تھا کہ کچھ اور لکھوں گا ، مگر فرصت نہیں ہے ، اس لئے بعد میں لکھوں گا ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭
عزیزم ! زادکم اﷲ علماً نافعاً ورزقکم فہماً سلیماً
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
کل رات میں تمہارا خط ملا، بہت خوشی ہوئی ۔ تین اشکالات رفع ہوگئے ، اس