غلو اور تشدد وتعمق کا ایسا غلبہ ہے کہ بس کچھ نہ پوچھو ، دیکھو رفع یدین اور ترک رفع یدین ، قرأۃ خلف الامام وترک قرأۃ ، آمین بالجہر وآمین بالسر وغیرہ مسائل قرون اولیٰ سے مختلف فیہ چلے آرہے ہیں ، لیکن ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ کچھ لوگوں نے ان مسائل کو مستقل موضوع بنالیا ، اور نتیجۃً بات غیر مقلدیت تک جا پہونچی ، کچھ لوگوں نے امکانِ نظیر وامکانِ کذب جیسے دقیق علمی مسائل پر قلم اٹھایا ، اور بالآخر ان کی کوکھ سے بریلویت نے جنم پایا ، کچھ لوگوں نے حکومت واقتدار کو اپنا نشانہ بنایا اور جماعت اسلامی بن کر علیٰحدہ ہوگئے ۔ اور بھی بعض بعض افراد کچھ معمولی مسائل کو مستقل اپنا مشغلہ بناکر اپنی انفرادیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور امت کی ایک ایک ٹولی لے کر الگ ہونا چاہتے ہیں ۔ والقصۃ بطولھا ، حدیث الحزن یا سعدیٰ طویل
میرے دل میں کچھ ایسی بات آتی ہے کہ دعاء بعد الصلوٰۃ کو ا گر مستقل موضوع بناکر عوام کے سامنے پیش کردیا جائے تو عوام میں انتشار تو الگ رہا ، خود علماء میں کچھ قبول کریں گے ، اور کچھ ردوانکار سے پیش آئیں گے ، پھر اگر سلسلہ بڑھا تو شدت بھی پیدا ہوگی اور بالآخر یہ مسئلہ ایک کشمکش بن کر رہ جائے گا ، حالانکہ اس کی حیثیت دیکھ چکے ہو ۔
جناب نبی کریم ا نے بنائِ کعبہ کے مسئلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے فرمایا تھا : یا عائشۃ! لولا قومک حدیث عھدھم … قال ابن زبیر : بکفر … لنقضت الکعبۃ فجعلت لھا بابین ، باب یدخل الناس وباب یخرجون ۔ اس حدث کے فوائد میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ :ومنہ ترک انکار المنکر خشیۃ الوقوع فی انکر منہ (فتح الباری ،کتاب العلم ، باب من ترک بعض الاختیار الخ)