بدعت کی آخری دو قسمیں ان کے مقابلے میں نسبتاً اخف ہیں ، لیکن ان کا ارتکاب بھی ضلالت ہی ہے ۔ ان سے اجتناب ضروری ہے ، اور دین کو آلائشوں سے پاک کرنا بے حد ضروری ہے ۔
اب دو صورتیں اور رہ گئی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کوئی نیا عمل ایجاد کیا جائے اور اس کا اہتمام والتزام بھی کیا جائے ، مگر اس کو دین کا درجہ نہ دیا جائے ، یعنی اس میں ثواب کا اور اس کے ترک میں گناہ کا تصور نہ ہو، بعض اکابر نے اسے بھی بدعت شمار کیا ہے ، لیکن بنظر غائر دیکھو تو فی أمرنا کے ذیل میں اس قسم کا عمل نہیں آتا ، اس طرح کے اعمال کو ’’ رسم ورواج ‘‘ کہنا چاہئے ، یہ بھی حرام وناجائز ہیں ، کیونکہ دینی اعمال کی طرح ان میں بھی مقصودیت کی شان پیدا ہوجاتی ہے ، شادی بیاہ کی رسمیں ، عید بقرعید کی سوئیاں اسی میں داخل ہیں ، ہمارے فقہاء کے نزدیک عصر وفجر اور عیدین کے بعد مصافحے اسی قسم میں داخل ہیں ۔ ان پر بھی بدعت کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن حقیقت واضح ہوچکی ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی عمل اپنی ہیئت وصورت کے ساتھ قرون مشہود لہا بالخیر میں رہا ہو، اور مقصود رہا ہو ، عملاً اور قولاً اس کی ترغیب بھی ہو ، مگر اس کا اہتمام والتزام نہ رہا ہو، بغیر التزام کے اس پر عمل ہوتا رہا ہو ، پھر بعد میں اس کے اندرالتزام واہتمام پیدا ہوگیا ہو، ا س کی مثال جیسے ایصالِ ثواب ، ظاہر ہے کہ ایصال ثواب کا وجود رسول اﷲ ا کے زمانے میں تھا ، مگر اس کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا ، بس چند لوگوں سے اس کا ثبوت ملتا ہے ، لیکن بعد میں اس کا جیسا لزوم ہوا وہ ظاہر ہے ، یہ التزام بھی دو طرح کا ہوسکتا ہے ، ایک یہ کہ لزوم کا اعتقاد کرلیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ لزوم کا اعتقاد تو نہ ہو ، لیکن عملاً اس کا التزام ہو ، جس سے لزوم کا ایہام ہو ، اس میں لزوم اعتقادی کا درجہ