سارے عالم کے لئے رحمت وبرکت کا عنوان تھی ، خدا کی خاص رحمت کا نزول ہوا تھا ، لیکن کیا وہ تاریخ پھر کبھی لوٹ کر آئی ہے ، ظاہر کہ وہ دن گیا ، وہ تاریخ گئی ،ا س کی برکت ورحمت اسی کے ساتھ جاکر خزانۂ بقا میں جمع ہوگئی ۔ اب سال بھر کے بعد اسی نام کی تاریخ پھر آئی ، تو صرف اسم لوٹا ہے ، مسمیٰ نہیں لوٹا ہے ، وہ تو جاچکا ہے ، ہم کسی دلیل سے یہ تسلیم کرلیں کہ صرف اسم کے اشتراک کی وجہ سے اس حصۂ زمان میں بھی وہی خیر وبرکت سرایت کرگئی ، ۱۵ ؍ شعبان ، عشرہ ذی الحجہ ، رمضان شریف وغیرہ کے لئے تو قرآن وحدیث سے دلائل موجود ہیں کہ یہ ایام جب آتے ہیں تو حق تعالیٰ کی رحمت برس جاتی ہے ، لیکن ۱۲؍ ربیع الاول ہو یا کوئی اور تاریخ ولادت کسی نبی کی ہو ، اسی نام کی تاریخ جب کبھی آئے گی تو وہی خیر وبرکت عود کرے گی ، اس کیلئے کیا دلیل ہے ؟
بدعت عملی کی قسم ثانی وثالث کے ذیل میں تقیید مطلق کی بدعت بھی آجاتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ شریعت نے کسی کام کا حکم دیا ، مگر اس کی کوئی مخصوص شکل نہیں متعین کی بلکہ اصولی طور پر جائز وناجائز کی کچھ حدیں متعین کرکے ، کرنیوالے کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دیا ہے ، مثلاً تعلیم وتبلیغ وغیرہ ، یہ امور مامور بہا ہیں ، لیکن شارع نے ان کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں مقرر کی ہے ، ان میں سے کسی امر کی کوئی مخصوص ہیئت متعین کرکے اس پر اصرا رکرنا ، جس کے نتیجے میں وہی ہیئت مقصودیت کا رتبہ حاصل کرلے ، یہ بھی بدعت کا احداث ہے ، کیونکہ اس میں ایک نئے عمل کا ایجاد اور پھر اس کاا ہتمام والتزام وجود میں آتا ہے ، اور بلاشبہ من أحدث فی أمرنا ھٰذا میں یہ بھی داخل ہے ۔ بدعت کی چاروں قسموں میں پہلی دو قسمیں بہت شدید ہیں ، کیونکہ ان کے نتیجے میں نصوص کا انکار اور بے جا تاویلات کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے ، اور نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔