سمجھا ہے ، وہ یہ ہے کہ جس بدعت کو رسول اﷲ انے رد فرمایا ہے …… در حقیقت بدعت وہی ہے بھی …… ابتداء ً اس کی دو قسمیں ہیں ، بدعت اعتقادی اور بدعت عملی ، پھر بدعت عملی کی بھی دو صورتیں ہیں ، بعض وہ ہیں جو کسی اعتقادی بدعت کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہیں ، اور بعض وہ ہیں جن کے نتیجہ میں بدعت اعتقادی پیدا ہوتی ہے ، پھر اس دوسری قسم کی دو نوعیں ہیں ۔ ایک تو وہ جن کے مقتضیات خیر القرون میں تھے ،ا س کے باوجود ان کو عمل میں نہیں لایا گیا ، دوسرے وہ جن کے مقتضیات خیر القرون میں نہ تھے ۔ خلاصہ یہ کہ بدعت کی چار اقسام ہیں ۔
بدعت اعتقادی ، بدعت عملی ، جو نتیجہ ہے بدعت اعتقادی کا ۔ بدعت عملی جس کے نتیجہ مین بدعت اعتقادی وجود میں آتی ہے ، اور اس کے مقتضیات خیر القرون میں نہ تھے ،بدعت عملی جس کے مقتضیات خیر القرون میں تھے ۔ بدعت اعتقادی کی مثال خلق قرآن ، انکارِ صفات وغیرہ ۔ دوسری کی مثال شیعوں کے عقیدۂ امامت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے شمار خرافات ۔ تیسری کی مثال جیسے گیارہویں شریف ، کونڈا ، صحنک وغیرہ ، تفصیل اس کی یہ ہے کہ گیارہویں کا تعلق حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہٗ کی غالباً ولادت سے ہے ، ظاہر ہے کہ اس کا مقتضیٰ خیر القرون میں نہ تھا ، لیکن اس عمل کے نتیجے میں اس دن کے متبرک ہونے کا اعتقاد پیدا ہوگیا ہے ، آخری کی مثال جیسے مجلس میلاد اور عید میلاد النبی وغیرہ ۔ عید میلاد النبی کی رسم غیر مسلموں سے مسلمانوں میں داخل ہوئی اور عبادت بن گئی ، اس کا متقضیٰ تو خیر القرون میں موجود تھا لیکن نہ کبھی رسول اﷲ ا نے اس کا اہتمام کیا ، اور نہ صحابہ کو اس کا حکم دیا ، اس کے نتیجہ میں ۱۲؍ ربیع الاول کے متبرک ہونے کا عقیدہ جما ۔ حالانکہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جس تاریخ کو رسول اﷲ ا کی ولادت شریف ہوئی ہے ، وہ یقینا عالم انسانیت بلکہ