قال ابن عبد السلام فی اواخر ’’ القواعد ‘‘ البدعۃ خمسۃ أقسام فالواجبۃ کالاشتغال بالنحو الذی یفھم بہ کلام اﷲ ورسولہ لان حفظ الشریعۃ واجب ولایتاتی إلا بذالک فیکون من مقدمۃ الواجب …… ’’والمحرمۃ‘‘ ما رتبہ من خالف السنۃ من القدریۃ والمرجئۃ والمشبھۃ ’’ والمندوبۃ ‘‘ کل احسان لم یعھد عینہ فی العھد النبوی کاجتماع عن التراویح وبناء المدارس والربط والکلام فی التصوف المحمود وعقد مجالس المناظرۃ ان أرید بذالک وجہ اﷲ والمباحۃ کالمصافحۃ عقب صلوٰۃ الصبح والعصر والتوسع فی المستلذات من أکل شرب وملبس ومسکن وقد یکون بعض ذالک مکروھاً أو خلاف الاولیٰ ،واﷲ أعلم (کتاب الاعتصام بالکتاب والســـــنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اﷲ ﷺ)
اس عبارت میں بدعت کے پانچ رتبے جو بیان ہوئے ، ان میں پہلا اور تیسرا تو من أحدث فی أمرنا کے تحت آتا ہی نہیں ، کیونکہ فی أمرنا کا مطلب تو یہ ہے کہ دین کے مجموعہ میں وہ دینی حیثیت براہ راست پیدا کرلے ، اور یہ امور وسائل وذرائع بن آئے ہیں ، وسائل کا اختیار کرنا ضروری ہے ، اور وسائل بدلتے رہتے ہیں ، لہٰذا ان پر بدعت کا اطلاق تجوزاً ہے، ہاں دوسری اور چوتھی اور پانچویں چیز قابل غور ہے ، دوسری اور پانچویں تو یقینا من أحدث فی أمرنا ھٰذا مالیس منہ میں داخل ہے ، چوتھی کو اگر اس میں داخل کیا جائے تو یقینا رد ہونی چاہئے ، پھر اسے مباح نہیں کہنا چاہئے ، اور اگروہ داخل نہیں ہے تو مباح ہونے میں شبہ نہیں ۔
بندہ نے جہاں تک غور کیا ہے اور قرآن وحدیث اور تعامل سلف سے جو کچھ