وسیلہ بالاعمال سب کے نزدیک جائز اور مستحب ہے ۔ حدیث میں غار والے تین آدمیوں کا قصہ مذکور ہے ،ا س کے علاوہ مسنون دعاؤں میں کتنی دعائیں ایسی ہیں جن میں توسل کا ثبوت ملتا ہے ، حاصل اس توسل کا یہ ہے کہ یا اﷲ فلاں بزرگ میرے ظن میں آپ کے محبوب ہیں مجھے ان سے محبت ہے ، اس محبت کے طفیل میں آپ سے یہ درخواست ہے ، یہ جو بطفیل فلاں آتا ہے اس کا مفہوم یہی ہے ، فلاں کے صدقے میں ، فلاں کی برکت سے ، یہ سب الفاظ یہی معنی رکھتے ہیں ۔ اس توسل کو حافظ ابن تیمیہ بھی جائز بلکہ اعظم قربات کہتے ہیں ۔ یہ توسل بالمحبۃ ہے ، ہمارے نزدیک یہی توسل جائز ہے ۔ آج کل عربوں نے فتاویٰ ابن تیمیہ جو شائع کیا ہے ،ا سکی پہلی جلد صفحہ ۲۲۰ ہر دیکھو ، توسل بالمحبۃ پر کلام بہت اچھا کیا ہے ، اور اعظم الوسائل بتایا ہے ۔
لا تشدواالرحال إلا إلیٰ ثلٰثۃ مساجد میں مجھے تعجب ہے کہ مستثنیٰ منہ الیٰ شیٔکیونکر ہوجائے گا ، یہ استثناء ظاہر ہے کہ متصل ہے ، اور استثناء متصل کا قاعدہ ہے کہ مستثنیٰ منہ مستثنیٰ کی جنس سے ہوگا ۔ لہٰذا بات صاف ہے کہ لا تشدواالرحال الیٰ مسجد من المساجد إلا إلیٰ ثلٰثۃ مساجد، اس میں قبور کا ذکر کدھر سے آیا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ استثناء مفرغ میں اگر ایسا ہی عام مستثنیٰ منہ مراد ہوگا تو کلام سخریہ بن کر رہ جائے گا ۔ تم کہو ماجاء نی إلا زیدٌ تو کیا اس سے دنیا کی ہر چیز کی نفی مقصود ہے ، کلا وحاشا ۔ محض یہ ارشاد ہے کہ عبادت کے اہتمام کے لئے اگر تین مسجدوں کی جانب سفر ہوتو ٹھیک ہے ، ان کے علاوہ کسی مسجد کو کسی مسجد پر فوقیت حاصل نہیں ، فقط۔
زیارتِ قبور کو اس حدیث کے ذیل میں لانا خوش فہمی ہے ، یا اجتہاد کا طغیان ہے ۔ حافظ ابن تیمیہ کا یہ نظریہ قطعاً بے دلیل بلکہ خلافِ دلیل ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی