ان تمام ترغیبات سے محرومی لازم آئے گی ، جو رسول اﷲ ﷺ سے ثابت ہے ، اہل عرب اور غیر مقلدین نے دین کو بہت کچھ حذف وترمیم کا نشانہ بنایا ہے ۔ لہٰذا ان کی وجہ سے یہ عمل چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ رہے حافظ ابن تیمیہ تو وہ بایں جلالت قدر بہت کچھ حدید المزاج اور تفرد پسند بھی ہیں ،ا س لئے ان کے اقوال کو اختیار کرتے ہوئے طبیعت ہچکچاتی ہے ، بالخصوص سنت وبدعت کے بارے میں ۔
آگے دوسرے امور سے متعلق سنو!
حضرت حاجی صاحب کے جس مکتوب کا ذکر تم نے کیا ہے ، وہ میرے خیال میں وضعی ہے ۔ مکاتیب رشیدیہ میں حضرت حاجی صاحب کا ایک مکتوب موجود ہے ، جس میں انھوں نے تحریر فرمایا ہے کہ اس مکتوب کے خلاف اگر کوئی بات کہیں سے معلوم ہوتو اس کو فقیر کی جانب منسوب نہ کریں ۔ حضرت گنگوہی ؒ کے بعض معاندین حضرت حاجی صاحب کے پاس رہتے تھے ، اور مکہ معظمہ سے واپس آکر جھوٹی سچی خبریں اور تحریریں مشتہر کیا کرتے تھے ۔ حضرت گنگوہی کو بعض اوقات بڑی ایذائیں ان لوگوں نے پہونچائی ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب نے اس سلسلے میں تسلی فرمائی ہے ، خود حضرت گنگوہیؒ کے جو مکاتیب مختلف لوگوں کے نام ہیں ، ان میں اس قسم کے اشارات ہیں ۔ تم مکاتیب رشیدیہ پڑھ لو ۔ میرے پاس وقت نہیں ہے ، ورنہ اس مکتوب کی نشاندہی کردیتا ۔
وسیلہ متعارف کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ، قرآن میں جو وسیلہ ہے ، وہ بمعنی قربت وطاعت ہے ، اس لئے اس سے کوئی بھی استدلال بے محل ہے ، نہ وہاں نفی ہے اور نہ اثبات ، حافظ ابن تیمیہ وسیلہ کے مسئلہ میں ہمارے مسلک سے الگ نہیں ہیں ، وسیلہ کی بعض صورتیں جو اہل بدعت میں رائج ہیں ، وہ بلا شبہ بدعت بلکہ شرک ہیں ،