اور چیز مزید فرض ہوکر امت کی ذمہ داری بڑھ جائے ،ا س لئے اجتماعی طور پر آپ نے اس کا اہتمام نہ فرمایا ہو ، اور آپ کے بعد جب یہ احتمال ختم ہوگیا ، تو خود بخود اس کا دستور بن گیا ۔ اور الگ سے دستور بنانے کا اہتمام نہیں کرنا پڑا ، کیونکہ یہ روز پانچوں وقت عمل میں آنے والی چیز تھی ، اس کے برخلاف تراویح کااہتمام کرناپڑا اور شاید اسی وجہ سے کہ اس کا وقوع سال میں ایک ہی مرتبہ ہوگا ، صرف قولی ترغیب پر آپ نے اکتفاء نہ فرمایا بلکہ عملاً تین روز جماعت کے ساتھ ادا کرکے دکھا دیا اور دعاء میں اس کی ضرورت نہ تھی ، اس لئے صرف قولی ترغیبات پر اکتفاء کیا ۔ واﷲ أعلم بحقیقۃ الحال
مجھے اس پر اصرا ر نہیں ہے ، لیکن تمام ترغیبات سے صرف نظر کرکے محض اہتمام والتزام کے شبہ سے اس عمل کو چھوڑنا گوارا نہیں ہوتا ۔ اہتمام والتزام سے بدعت ہونا مختلف فیہ میں نے اس لئے کہاتھا کہ بعض چیزیں دیکھتا ہوں کہ امام شافعیؒ کے یہاں غیر معمولی اہتمام والتزام کے ساتھ جاری ہیں ، مثلاً جمعہ کے روز فجر میں الم سجدہ اور سورۂ دہر کی تلاوت ، حالانکہ التزاماً آپ سے اس کا ثبوت نہیں ہے ، مجھے کچھ ایسا خیال ہوتا ہے کہ التزامِ مالایلزم احناف کے نزدیک تو مکروہ ہے ، مگر شوافع کے نزدیک مکروہ نہیں ، تم تحقیق کرلو ۔ اگر ایسا ہوتو کیا مضائقہ ہے کہ اس عمل کو ان کے اصول پر درست مان لیا جائے ۔ دعاء کے مسئلے میں اتنی بات اجمالاً لکھ دی ، تفصیل لکھوں تو دفتر تیار ہوجائے ، لیکن کچھ تو میرے پاس وقت کی کمی ، اور کچھ یہ خیال کہ میری حیثیت ہی کیا ہے ، کہیں کوئی اور شخص دیکھ کر ہذیان نہ سمجھنے لگے ، اس لئے قلم کو روکتا ہوں ، زبانی گفتگو میں تفصیل سے عرض کروں گا ، اس میں بہت سے اصول ہوں گے۔اگر میری یہ تحریر تمہارے دل کو لگتی ہوتو خیر ، ورنہ اس کو میرے پاس لوٹادو ۔ میں ابھی اور غور کررہاہوں ، لیکن اس کا بدعت ہونا طبیعت کو قبول نہیں ہوتا ۔ بصورت ِ ترک