پہچانا ، نہ اس کے جذبہ ٔ اندروں کو پہچانا اور نہ اس کی دوا کی قدر کی ، وہ بڑا مایوس ہوتا ہے، اپنی دوکان اٹھا لینا چاہتا ہے ، مگر پھر یہ سوچ کر بیٹھا رہتا ہے کہ شاید کوئی بیمار آجائے تو اسے صحت مل جائے۔
اس زمانے میں اللہ والوں کی یہی مثال ہے ، یہ طبیب ہیں ، دوائیں سب ان کے پاس ہیں ، انسانیت بیمار ہے ، مگر کسی کو قدر کرنے کی توفیق نہیں اور تو اور خود اپنے گھر والے بھی اعراض اور بے رخی برتتے ہیں ، پھر یہ حضرات صدمے سے چور ہوجاتے ہیں ۔
جناب والا کی شان مجھے باوجود اپنے نقص نظر کے یہی معلوم ہوتی ہے ۔ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ کھانا پکا پکایا موجود ہے کوئی کھانے و الا نہیں ملتا ، بھوکا آدمی پتھر چبا رہا ہے ، مگر عمدہ کھانے سامنے موجود ہوتے ہوئے ان سے اعراض کرتا ہے۔ پھر اللہ والے کیا کریں ؟ مجبوراً اپنی دولت سمیٹے پڑے رہتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ اس ناقدری کا وبال کہیں لوگوں پر نہ پڑ جائے ، وہ دعائیں کرتے ہیں کہ پروردگار ایسا نہ ہو ، مگر غیرت الٰہی کو جلال آتا ہے اور لوگ آزمائشوں میں گرفتار ہوتے ہیں ۔
لیکن اللہ والے خسارے میں ہیں ؟ یہ کامیاب نہیں ہیں ؟ نہیں ان کے خسارے میں ہونے کا سوال ہی نہیں ، جتنا صدمہ بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عنایتیں دم بہ دم بڑھتی ہیں ، دنیا ان کی قدر نہ کرے ، آسمان کی مخلوق ان کی قدر کرتی ہے ، آسمان و زمین کا خالق ان کی قدر کرتا ہے ، زمین پر سناٹاہے مگر آسمانوں میں ان کی گونج سنائی دیتی ہے ، آدمی ان سے انحراف کرتا ہے ، لیکن فرشتے مسلسل متوجہ ہیں ، وہ دعائیں کرتے ہیں وہ ان کی محبت سے لبریر ہیں ، جنت ان کا انتظار کرتی ہے ۔ حور وغلماں منتظر ہیں ، دنیا والے ناقدری کرکے اپنا نقصان کرتے ہیں ، اللہ سے سچا تعلق رکھنے والا کبھی