اور چاہتا ہے ، کوئی تو مخلص ہوتا !جو اللہ کیلئے کام کرتا ، اخلاص اختیار کرتااور وہی طریقہ اپنے کام کیلئے پسند کرتا جو اللہ کا پسندیدہ ہے ، رسول کا فرمودہ ہے ۔ اب تو مخلص ہی عنقا ہے ، اور اگر جذبہ اخلاص کہیں ہے تو طریقہ عمل منحرف ہے ، دنیا میں آخرت کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہے ،زمانہ ٔ نبوت کے بعد کی وجہ سے نور استعداد کم ہے ، قال اﷲ قال الرسولکی آواز بہت ہے ، مگر اس کے کہنے والوں کا حال اور عمل کچھ اور ہے، اور قول بلا عمل اثر سے خالی ہے نورانیت سے تہی مایہ ہے ، اللہ والوں کے قلب میں وہ نور بھی ہے ، ان کے پاس وہ طریقہ ٔ عمل بھی ہے، اسے عطا کرنے اور بانٹنے کا جذبہ ٔ بے تاب بھی ہے ، مگر دیکھنے والے اسے اجنبی سمجھ کر گذر جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام کی یہ چیز نہیں ہے انہیں کچھ اور چاہئے۔
ایک طبیب نے دیکھا کہ لوگ ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہیں ، اس کی انہیں تکلیف بہت ہے، وہ کراہ رہے ہیں تلملا رہے ہیں چلا رہے ہیں ، طبیب اس بیماری کی دوا جانتا ہے ، اسے لوگوں پر شفقت بھی ہے ۔ چاہتا ہے کہ لوگ اس بیماری سے نجات پائیں اس کے پاس اعلیٰ درجہ کی دوا بھی ہے ، وہ ترس کھا کر لوگوں کے درمیان دوا لیکر بیٹھ جاتا ہے اور اعلان کرتا ہے ، اس بیماری کی دوا میرے پاس ہے، آو ٔ اور اسے سستے داموں میں لے جاو ٔ ، دام نہ ہوتومفت ہی لیجاو ٔ، وہ سوچتا ہے کہ لوگ بیماری سے پریشان ہیں ، ٹوٹ پڑیں گے اور دوالے جائیں گے ، استعمال کریں گے اور شفا پائیں گے ، لیکن اس کی حیرت اور افسوس کی انتہا نہیں رہتی جب وہ دیکھتا ہے کہ اولاً تو لوگ دوا لینے آتے ہی نہیں ، اور جو آتے بھی ہیں ، تماشا دیکھنے آتے ہیں ، اور تماشا کرکے چلے جاتے ہیں ، یادور ہی سے ایک نگاہ غلط انداز سے دیکھتے ہیں اور پھر کسی طرف بڑھ جاتے ہیں ، طبیب کے صدمے کی انتہا نہیں رہتی ، مگر بیماروں کے ٹولے نے نہ اس کو