کہ مطلوب ومستحب ہے ، بلکہ قرنہا قرن سے معمول بہ ہے ، اس کو اگر کسی مختلف فیہ عارض کی وجہ سے بدعت قرار دیا جائے تو اس کی سند کے لئے یہ ذہنی خیال بھی کچھ نہ کچھ تو معاون بن ہی جائے گا ۔
بات یہ ہے کہ بعض امور جو فی الاصل اس لائق تھے کہ ان کی فرضیت نازل ہوتی ، لیکن اس سے امت مشقت میں پڑجاتی ، رسول اﷲ ﷺ نے ان کی ترغیب تو دیدی مگر عام طور سے اس کا اہتمام والتزام نہیں فرمایا ۔ آپ کے اوپر تمام اعمال کی خاصیات وخصوصیات اور ان کی خیرات وبرکات واضح تھیں ،آپ مشاہدہ فرمالیتے تھے کہ محبوبیت ومقبولیت کے لحاظ سے فلاں عمل اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ امت پر فرض ہوجائے ، لیکن باوجود رغبت وشوق کے محض اس بنا پر اس عمل کو ترک فرمادیتے تھے کہ آئندہ امت مشقت میں نہ پڑجائے ۔ دیکھو تراویح کے ساتھ یہی قصہ ہوا ، حالانکہ اس کو آپ نے روزہ کے مساوی ثواب کے اعتبار سے قرار دیا ہے ۔ چنانچہ من صام رمضان ایماناً واحتساباً الخ کے ساتھ من قام بھی فرمایا ہے ۔ یہی حال مسواک کے متعلق بھی منقول ہے ، تلاش سے اور چیزیں بھی مل جائیں گی ۔ کیا عجب کہ فرض نمازوں کے بعد دعاء کا بھی یہی مقام ہو ، حدیث سے ثابت ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل فرائض کی ادائیگی ہے ، اور فرائض میں سب سے بلند رُتبہ نماز کا ہے ۔ ظاہر ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بندہ کس قدر محبوب ومقبول بن جاتا ہوگا ، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرض کی مشروعیت اصالۃً جماعت کے ساتھ ہوئی ہے اور جماعت کا ثواب پچیس یا ستائیس گنا زیادہ ہے ۔ پھر خیال کرو کہ محبوبیت کس درجہ ترقی کرجاتی ہے ۔ اس صورت میں اگر فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد دعا کرنی فرض ہوجاتی تو عین مناسب تھا ، مگر آپ کی شفقت نے گوارا نہ فرمایا کہ ایک