بعد دعاء کی ترغیب دی ہے ،ا س لئے اگر اس وقت دعاء بالکل نہ کی گئی ہوتو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس ترغیب کا حاصل کیا ہوا ۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہو کہ نمازیوں نے اپنے اپنے طور پر دعاء کی ہوگی ، نہ ہیئت اجتماعی کے ساتھ ، تو یہ بلاشبہ صحیح ہے ، لیکن سوچو کہ ہیئت اجتماعی بنتی کیسے ہے ؟ اسی طرح تو چند افراد اکٹھا ایک ہی کام میں مشغول ہوں ، یہاں یہ صورت ہے ، فرض کرو امام نے بھی دعاء شروع کی اور کچھ مقتدیوں نے بھی تو ہیئت اجتماعی بن گئی ، گوکہ اس میں اتباعِ امام کی نیت نہ ہو ، خیال ایسا ہوتاہے کہ رسول اﷲا کے دورِ مسعود میں ایسی صورت ضرور احیاناً ہوتی رہی ہوگی ، احادیث کے اقتضاء سے یہ بات بعید نہیں ہے ، آپ کے بعد اس نے ایک عام رواج کی شکل اختیار کرلی ہو ۔ بہر کیف اس کی بنیادکا دورِ رسالت ہی میں پڑنا بظنِ غالب ثابت ہوتا ہے ، اور اس کے بعد اس کا رواج بڑھتا چلا گیا ، اگر یہ چیز وہاں سے چلی نہ ہوتی تو سارے عالم کے مسلمانوں میں نہ پھیلتی ، اس خیال کی بنیاد پر اس کو بدعت کہنے سے طبیعت میں رکاوٹ ہوتی ہے ، امت میں معدودے چند علماء کے علاوہ کسی نے اس کو بدعت نہیں کہا ہے ، جبکہ اس پر اتنا طویل عرصہ گذر گیا ہے کہ اس کا زمانۂ آغاز متعین طور پر بتانا مشکل ہے ، اس لئے بھائی بدعت کہنے سے طبیعت کو رکاوٹ ہوتی ہے ، اور اسے ترک کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ، ہاں یہ ہے کہ یہ بات خوب واضح کردی جائے کہ دعاء نماز کا جزو نہیں ہے ، اور میرا خیال ہے کہ اتنا تو ہر مسلمان جانتا ہے ۔
آج اس مسئلہ پر میں غور کررہا تھا کہ اچانک ایک بات ذہن میں آئی ، جو سابقہ باتوں ہی کی بنیاد پر متفرع ہے ،ا س کی تفصیل سنو ! آج کل میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے، دوسرے کاموں کا حرج کرکے لکھ رہا ہوں ، لیکن تمہاری طلب کیسے ٹال دوں ، بغور سنو! ممکن ہے صرف ذہنی خیال ہو ، لیکن ایک عمل جو بنیادی طور پر نہ صرف یہ