تمہاری سلامتی فہم سے مسرت ہوئی ، حق تعالیٰ علم صحیح،عمل صالح اور فہم سلیم مزید ارزانی فرمائیں ، تم لوگوں کی محبت کو اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں ، اور میری خواہش ہے کہ حق تعالیٰ نے ذہن ودماغ اور قلب ونظر کی جو صلاحیت بخشی ہے ، اس کا مصرف صرف دین اورعلم دین ہو ، اسی سے میری طبیعت نہال ہوگی ، دنیا کے خدام ان گنت ہیں ، اور دین کے خدمت گزار گنتی کے بھی نہیں ہیں ۔ مجھے اپنے لوگوں سے صرف خدمت دین ہی کی توقع ہے ۔
دعاء والے مسئلے میں مجھے خود اضطراب تھا ، یہ بالکل صحیح ہے کہ مروجہ طریقہ پر ہیئت اجتماعی کے ساتھ دعاء کا مانگنا روایات سے ثابت نہیں ہے ، نہ اثبات ، نہ صراحۃً نفی ، ہاں اشارۃً نفی بھی شاید موجود ہو ، اسی لئے صرف حافظ ابن تیمیہ ہی نہیں بعض اور اکابربھی اس کو بدعت کہتے ہیں ۔ مثلاً علامہ ابوا سحاق شاطبی صاحب الاعتصام نے بھی شد ومد کے ساتھ اس کو رد کیا ہے ، لیکن مجھ کو اس سلسلے میں جو خلجان تھا وہ یہ کہ یہ عمل زمانۂ دراز سے متواتراً تمام دنیا کے مسلمانوں میں رائج ہے ، اب اہل عرب نے اس کو ختم کردیا ہے ، ورنہ جب تک ترکوں کی حکومت تھی ، اس وقت اس کا مکمل رواج تھا ، اور اس کے ابتداء کی تاریخ معلوم نہیں ۔ ہر زمانہ میں معدودے چند علماء جو اپنے انفراد وتفرد اور حدتِ مزاج کے اعتبار سے نمایاں رہے ہیں ، ان کے علاوہ عموماً سب کے درمیان بلا نکیر جاری رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ حافظ ابن تیمیہ کے زمانہ میں بھی تھا اور ان سے پہلے بھی تھا ، کب سے ہے معلوم نہیں ، رسول اﷲاکے زمانے میں اس طرح سے رواج نہ تھا لیکن یہ بھی نہ تھا کہ نمازوں کے بعد لوگ فوراً منتشر ہوجاتے ہوں ۔خود رسول اﷲ ﷺ سے منقول ہے کہ فرض نمازوں کے بعد آپ خود بھی دعائیں پڑھتے تھے ، اور صحابہ کو بھی فرض کے بعد دعاء کی ترغیب دیتے تھے ۔ چنانچہ قبولیت دعاء کے