علم وتعلم کے بعد بلکہ اسی دوران ضروری ہے کہ آدمی اپنے قلب کو بھی ہاتھ لگادے اور اس کی درستگی واصلاح کی تدبیریں شروع کردے ، ورنہ اگر ایک حالت پر قلب پختہ ہوگیا تو اس کا دوسر ی جانب التفات بغایت دشوار ہوجائے گا ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تمہیں اس جانب توجہ ہے ورنہ عموماً طلبہ کیا ، علماء بھی اس سے غافل رہتے ہیں ، اور اس کی وجہ سے زندگی بے کیف اور خشک گذرتی ہے ، میں بے کیف اور خشک اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دنیا کی ہر لذت اور خوشی فانی اور زائل ہے ، کسی کی عمر دراز نہیں ہے ، ابھی خوشی کی لذت ہے اور ابھی رنج کی بے لطفی ہے ، ابھی راحت کی حلاوت ہے اور ابھی کلفت کی تلخی ہے ، ایسی حلاوت جس کے پیچھے تلخی اور ایسی خوشی جس کے پیچھے رنج ہو کیا معنی رکھتی ہے ؟ البتہ ایمان کی حلاوت ، محبت الٰہی کی خنکی ، ذوقِ عبودیت کی سرمستی اور اعتماد علی اﷲ کی لذت ایسی چیزیں ہیں جنھیں کبھی زوال نہیں ، ایک انسان انھیں حاصل کرلے پھر کیا رنج کیا راحت ؟ کیا دردکیا درماں ، کیامرض اور کیا صحت ، ہر حال میں انسان کے اندر وہ ایک لذتِ لازوال باقی اور دائم رہتی ہے ، پھر تو جراحت میں بھی وہی لطف وحلاوت ہے ، جو راحت میں ، زندگی بھی ’’ حیاتِ طیبہ ‘‘ اور موت بھی ’’ مماتِ سویہ ‘‘ ۔ حدیث میں دعا وارد ہے : أللٰھم إنی أسألک عیشۃ نقیۃ ومیتۃ سویۃ ومرداً غیر مخزی ولافاضحٍ ، اگر قلب میں محبت الٰہی حاصل ہے تو زندگی وصول ، ورنہ سب ضائع، اب دنیا کے احوال کچھ اس ڈھنگ سے چل رہے ہیں کہ انسان کی باطنی استعداد فاسد ہوتی چلی جارہی ہے ، قلب کی درستگی کے لئے خاصی محنت درکار ہے جس کے لئے ابھی تمہیں فرصت نہیں ، اس کم فرصتی میں چند باتوں کا التزام واہتمام کرلو تو بہت کچھ فلاح کی امید ہے ۔
(۱) طلبہ کے ساتھ اختلاط کم ہو ، اپنے کام سے کام رکھو ، مجلس بازی ، دوستی اور