درست ہوتو نتیجہ لازماً صحیح نکلے گا ، خواہ وہ سمجھ میں نہ آئے ۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا تو کیا ، انبیاء واولیاء کاملین تو سمجھے ہیں ، ان کا سمجھنا ہمارے لئے کافی ہے ۔
منفی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ اسی طور پر جیسے کہ اہل سنت ثابت کرتے ہیں ، اگر نہ مانا جائے تو ا سکے علاوہ جو بھی طریقہ ، جو بھی اصول اور جو بھی نظریہ اختیار کیاجائے ، وہ ایسے کھلے کھلے تضادات پر مشتمل ہوگا جن کو دور کرنا کسی کے بس کی بات نہ ہوگی ، بالکل خلافِ عقل چیزوں کو تسلیم کرنا پڑے گا ، اور ظاہر ہے کہ خلاف عقل باتیں محال ہوتی ہیں ، لہٰذا اس ایک عقیدہ ’’ عقیدۂ اہل سنت ‘‘ کے سوا سب باطل اور لغو ہیں اور وہی ایک ثابت وقائم ہے ۔
ہاں ایک بات اور سمجھ لو کہ انسان کا اختیار محسوس ہے اور جبر نامعلوم اور غیر محسوس ہے ۔ جبر کہتے ہیں سلب اختیار کو ، اس کا اثبات ایک غلط مقدمہ پر مبنی ہے ،جس کو تم نے ان الفاظ میں لکھا ہے کہ ’’ اﷲ تعالیٰ تمام مخلوق کی مقادیر پہلے متعین کرچکے ہیں اور ان کی مخلوق میں سے انسان بھی ہے ، اس کی بھی تقدیر اﷲ نے پہلے ہی متعین کردی ہے ، تو انسان مجبورِ محض باقی رہا ‘‘ سوال یہ ہے کہ تعیین تقدیر کی وجہ سے مجبورِ محض کیونکر ہوجائے گا ؟ کیا تعیین تقدیر میں ’’ اعطاء اختیار ‘‘ داخل نہیں ہے ،اور کیا یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے اسی اختیار کی وجہ سے جو اسے دیا گیا ہے ، افعال کا ارتکاب کرے گا ، ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بھی مقادیر کے ذیل میں آچکی ہیں ، تو سلب اختیار کدھر سے آیا ۔ اس سے تو واضح طور پر اختیار ہونا معلوم ہوتا ہے ، ہاں اعطاء اختیار میں وہ مختار نہیں ہے ، اسی لئے کہتا ہوں کہ اختیار معلوم ہے اور جبر نامعلوم ۔ فرض کرو اگر تعیین تقدیر کے باعث جبر آتا تو بتاؤ کہ وہ مقادیر انسان کو معلوم ہیں ، ہرگز نہیں پھر اس کے نتیجے میں جو جبر آئے گا وہ کیونکر معلوم ہوجائے گا ۔ اگر تم یہ کہوکہ اجمالاً مقادیر کا وجود تو معلوم ہے ،