لہٰذا جبر بھی معلوم ہوگا ، اس کا جواب یہ ہے کہ جبر بھی اجمالاً معلوم ہوگا ۔ اتنا تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ، لیکن جبر جو اجمالاً ثابت ہوگا ،ا س سے کوئی محذور لازم نہ آئے گا ، جبکہ اختیار تفصیلی معلوم ہے اور سزا وجزا محض اختیارہی کے بقدر ہوگا ، اس سے زیادہ نہ ہوگا ۔ اس لئے کوئی اشکال نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسان مختار بھی ہے ، مجبور بھی ، مختار ہونا معلوم ومحسوس ہے اور مجبور ہونا نامعلوم ونامحسوس ،ا ختیار کو ثابت کرنے کیلئے دلیل وبرہان کی حاجت نہیں ، اور جبر کو ثابت کرنے کے لئے دلیل وبرہان کی ضرورت ، اختیار بدیہی ہے ، اورجبر نظری ، نہ وہ مختارِ محض ہے اور نہ مجبورِ محض ۔ اس سے زیادہ لکھنا دردِ سر ہے ، میں نے بہت اجمال سے لکھا ہے ، غور سے پڑھو اور بار بار پڑھو ، انشاء اﷲ سمجھ میں آجائے گا ۔ اردو میں جبر زبردستی کے معنی میں آتا ہے میری تحریر میں وہ مراد نہیں ہے ۔
یمحواﷲ مایشاء ویثبت ( سورۂ رعد کا آخری رکو ع ، پارہ :۱۳) پر غور کرو ، تقدیر مبرم ومعلق کا سراغ اس میں مل جائے گا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد حنفی تھے۔
باقی یہاں سب خیریت ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۹؍ ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭