بنیاد ہے ، اور یہ بنیاد بالکل صحیح اور موافق عقل ہے ۔
تیسرا مسلمہ مسئلہ یہ ہے کہ ظلم کہتے ہیں یا تو ملکیت غیر میں تصرف کرنے کو یا اپنی ملکیت میں نامناسب عمل کرنے کو ، حق تعالیٰ کے لحاظ سے ملکیت غیر کا تو تصور ہی نہیں ، ہاں یہ ہوسکتا تھا کہ نامناسب عمل صادر ہو ، لیکن یہ دو وجہ سے منتفی ہے ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ افعال واعمال کے جو نتائج دنیا میں اپنے رسولوں کی زبان پر ظاہر فرمائے ہیں ، وہ عین مطابق عقل اور برمحل ہیں ، ظاہر ہے کہ آخرت میں انھیں نتائج کا ظہور ہوگا ، اور یہ بداہۃً واضح ہے کہ علمی اور عقلی اعتبار سے جو قانون بالکل موافق عقل ہو ، اگر اس کا عملی ظہور ہوجائے تو کون اسے خلافِ عقل اور نامناسب باور کرسکتا ہے ، ظاہر ہے کہ وہی عین مناسب ہے اور اس کے خلاف نامناسب ہے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ مناسب اور نامناسب کے لئے معیار عقل انسانی تو ہونہیں سکتی ، کیونکہ اس میں بے حد وحساب تفاوت ہے ، لامحالہ اس کا معیار حق تعالیٰ کا ارشاد وعمل ہے ، تو وہی فعل خداوندی خوب وناخوب کا معیار ہے تو اسے کیونکر نامناسب کہا جاسکتا ہے ، غرض دونوں معنی کے اعتبار سے ظلم حق تعالیٰ کی جناب سے منتفی ہے ۔ خوب غور کرلو ۔ یہ تینوں مسائل اپنے اپنے لحاظ سے خوب واضح اور مدلل ہیں ، ان میں ذرا بھی شبہ نہیں اور بالکل بدیہی عقلی ہیں ، لیکن ان تینوں کو جب ایک سلسلۂ بیان میں جوڑ دیا جاتا ہے ، تو ایک حیرت سی ہوتی ہے ، اور ایک نامعلوم الجھاؤ اس ترتیب میں پڑجاتا ہے ، بس یہ الجھاؤ نارسائی عقل اور ناتمامی ٔ ادراک کا نتیجہ ہے ، حدِ ادراک بس ان تینوں مسئلوں پر علیٰحدہ علیٰحدہ غور کرنا ہے ، اس کے بعد عقل کی تُرکی تمام ہوجاتی ہے ، اس لئے اسے تسلیم کرکے خاموش ہوجانا چاہئے اور الجھاؤ کے باوجود مسئلہ کے حق ہونے کا یقین رکھنا چاہئے ۔ اور یہ بھی بتادوں کہ جب دلیل کے تمام مقدمات صحیح ہوں ، ترتیب بھی