عزیزم مولوی احمد سعید سلّمہ ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
تمہارا خط ملے ہوئے ایک عرصہ گذر گیا ، اور جواب میں اب تک نہ لکھ سکا ، مجھے خود تعجب ہے کہ اس قدر تاخیر کیوں ہوئی ، جبکہ تمہارے اس خط میں ایک سوال بھی تھا ، جس کے جواب کا تقاضا میرے دل میں بہت ہے ، لیکن معاملہ وہی ہے جس کا تم نے سوال کیا ہے ، یعنی تقدیر ! آدمی اس کے سامنے بے بس ہے ۔
(۱) عزیزِ من ! تمہارا سوال جس مسئلہ کے متعلق ہے ، ا سکی حقیقت تک رسائی ہمارے اور تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ اس پر ایمان لانا اور اس سے فائدہ اٹھانا مطلوب ہے ، اس پر چون وچرا ممنوع ہے ، اور سب کے لئے ممنوع ہے ۔ طاعت وایمان کی برکت سے ممکن ہے کہ یہ مسئلہ منکشف ہوجائے ، باقی یہ کہ پوری حقیقت معلوم ہوجائے ، ناممکن ہے ۔ ہاں ہمارے لئے اتنی بات معاند ومناظر کو ساکت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ مسئلہ خلاف عقل نہیں ہے ، ہاں احاطۂ عقل سے خارج ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ خلاف عقل ہونا مستلزمِ عیب ہے ، اور ادراکِ عقل سے ماوراء ہونا اس کی عظمت وبلندی کی دلیل ہے ۔ رہا یہ مسئلہ کہ خلافِ عقل کیوں نہیں ہے تو اس کی دلیلیں دو قسم کی ہیں ، ایک مثبت ، دوسری منفی ۔ مثبت دلیل یہ ہے کہ تمام مذاہب اور تمام حکماء معتبرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا تعالیٰ تمام صفاتِ کمال کا جامع ہے ، اور ظاہر ہے کہ صفاتِ کمال میں سے اکمل ترین صفت علم ہے ، لامحالہ اس کا علم ازل وابد اور کلی وجزئی سب کو محیط ہوگا ۔ پھر یقینا مخلوقات کے تمام افعال واحوال اس کے علم تفصیلی کے اندر داخل ہوں گے ، اسی علم کی تحریر کا نام ’’ تقدیر ‘‘ ہے ۔
دوسرا مسلمہ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے تھوڑا ساہی سہی اختیار عنایت فرما رکھا ہے ، جس کو ہر شخص بطور بداہت کے جانتا ہے ، یہی اختیار سزا وجزا کی