تحیر کے شکار بن کر رہ جاتے ہیں ، خد اتعالیٰ اپنی صفات کو مفصل بیان کرکے بندوں کو اپنی بارگاہ میں دعوت حاضری دیتے ہیں ، اور فلاسفہ ومعتزلہ نفی مفصل کرکے بندوں کو خدا سے دور کرتے ہیں ، یہ کتنا عظیم خسارہ ہے،ا س پر خود کو عاقل کہتے ہیں ۔ ألا إنھم ھم السفہاء ولکن لایعلمون۔
حقیقت یہ ہے کہ انکار صفات کے بعد انسان نہ صرف خدا سے دور ہوجاتا ہے بلکہ خود کو خدا کے وجود سے محروم کردیتا ہے ، صفات نہ ہوں تو ذات کا وجودذہنی تو ہوسکتا ہے، وجود خارجی نہیں ۔
رہا مسئلہ خالقیت کا ، یعنی ان کے ا صولوں کے لحاظ سے بے شمار خالقین کا وجود ماننا پڑتا ہے ، تو شایدخالقین کا تعدد، بالخصوص جبکہ وہ حادث ہوں ، ان کے نزدیک قادح توحید نہ ہو، ان کے خیال میں قادح فی التوحید اگر کچھ ہے تو یہ کہ قدماء کا تعدد تسلیم کرلیا جائے ، بس اس سے توحید میں خلل پڑتا ہے، لیکن انھوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ جب حق تعالیٰ سے صدور … خواہ کسی چیز کا ہو… بطور وجوب کے ہو، جیسے سورج سے روشنی علی سبیل الوجوب صادر ہوتی ہے ، تو ہر وہ چیز جو حق تعالیٰ سے صادر ہوگی ، وجوب کی وجہ سے قدیم ہوگی ، جیسے فلسفیوں کے نزدیک عقول عشرہ قدیم ہیں ، خواہ وہ یہ کہتے ہوں کہ حق تعالیٰ واجب بالذات ہیں ، اور عقول واجب بالغیر ، تاہم وہ حق تعالیٰ سے مسبوق بالزمان تو ہیں نہیں ، مابالذات کی اولیت محض ایک ذہنی اعتبار ہے ، خارج میں سب کا وجود ایک ساتھ ہے، اور جب حق تعالیٰ کے لئے کوئی امر لازم اور واجب مانا جائے گا تو بلحاظ وجود خارجی کے دونوں یعنی لازم وملزوم متساوی القدم ہوں گے ، تقدم وتاخر محض اعتباری ہوگا، پھر صفات کے ماننے میں تو تعدد قدماء سے ڈرتے تھے ، صفات کے انکار کے بعد وہ وجوب کے قائل ہوئے، تو اس میں تمام