کو عقل فعال کے ساتھ نسبت دی ہے، جس کا وجود ان کے وہم کے علاوہ کہیں ثابت نہیں ہے، اور ان کے فاسد زعم میں حق سبحانہ وتعالیٰ سے ان کو کچھ کام نہیں ہے۔ لازمی طور پر چاہئے تھا کہ اضطراب واضطرار کے وقت عقل فعال کی طرف التجا کرتے، اور حضرت حق سبحانہ کی طرف رجوع نہ کرتے ، کیونکہ ان کے نزدیک حوادث کے وجود میں اس تعالیٰ کی کوئی مداخلت نہیں ہے ، اور کہتے ہیں کہ عقل فعال ہی حوادث کی ایجاد سے تعلق رکھتی ہے، بلکہ وہ تو عقل فعال سے بھی رجوع نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک بلیات کے دفع کرنے میں بھی اس کا اختیارنہیں ہے، یہ بد نصیب( فلاسفہ) اپنی بے وقوفی اور حماقت میں فرقۂ ضالہ سے بھی آگے بڑھ گئے ، حالانکہ کافر بھی بخلاف ان بدبختوں کے حق سبحانہ وتعالیٰ سے التجا کرتے ہیں اور بلاؤں کے دفعیہ کو اسی تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں ۔
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہی حال معتزلہ اور تمام منکرین صفات کا ہے ، چونکہ حق تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ بندوں کا خدا کے ساتھ تعلق دائم اور قوی رہے، اس لئے قرآن کریم میں جتنی کثرت سے صفات کا مضمون ہے اور کسی چیز کا نہیں ، بیشتر آیات کا تکملہ تذکرہ صفات ہے ، سمجھنے کی بات ہے کہ یہ مفصل اثبات کیوں ہے، اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاں نفی کا موقع آتا ہے وہاں غایت درجہ اختصار واجمال سے کام لیتے ہیں ، لیس کمثلہ شیٔ، اور ولم یکن لہ کفواً احد، بس اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں ،آخر کچھ تو اس میں حکمت ہوگی ، ہاں ، انسان کو منفی سے کیا سروکار، اس کے لئے کشش اور تاثر کاسامان اگر کہیں ہے تو وہ محض اثبات میں ہے ، حق تعالیٰ نے اثبات مفصل کیا ہے ، البتہ گمراہی کادروازہ بند کرنے کے لئے اجمالاً تشبیہ کی نفی کردی ہے ، اس کے برخلاف معتزلہ وفلاسفہ نفی مفصل کرتے ہیں ، اور اثبات میں محض