صفات کرکے خدا کو نعوذ باﷲ مفلوج تو کیا ہی ، خود کو بالکل نکما اور ناکارہ بناکر چھوڑدیا۔ أعاذنااﷲ من سوء الفہم والاعتقاد
اس جگہ جی چاہتا ہے کہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی ایک عبارت نقل کروں ، حضرت نے ان متفلسفین کو خوب سمجھا ہے۔ فرماتے ہیں :
’’ فلاسفۂ بے خرد، کمال درایجاب دانستہ نفی اختیار از واجب تعالیٰ نمودہ، اثبات ایجاب نمودہ اندایں بے خبراں واجب را تعالیٰ وتقدس معطل وبے کار داشتہ اند، وجز یک مصنوع کہ آں ہم بایجاب است از خالق سمٰوات وارض صادر ندانستہ، وجود حوادث رانسبت بعقل فعال دادہ کہ وجود آں جز در توہم ایشاں ثابت نشدہ است، بزعم فاسد ایشاں ، ایشاں را بحق سبحانہ وتعالیٰ ہیچ کارے نیست ناچار باید کہ دروقت اضطراب واضطرار التجاء بعقل فعال آرند وبحضرت حق سبحانہ ہیچ رجوع نکنند کہ اورا در وجود حوادث مدخلے ندادہ اند، گویند کہ عقل فعال است کہ بایجاد حوادث تعلق دارد، بلکہ بعقل فعال ہم رجوع ندارند کہ اورا در دفع بلیاتِ ایشاں نیز اختیارے نیست، ایں بے دولتاں در حمق وبلاہت پیش قدم فرق ضلالت اند، کافراں التجاء بحضرت حق سبحانہ وتعالیٰ می آرند ودفع بلیہ ازو تعالیٰ می طلبند بخلاف ایں سفیہاں ۔( مکتوب: ۲۶۶، دفتر اول ، ص:۴۶۸)
ترجمہ:بے عقل فلاسفہ نے کمال کو ایجاب میں جان کر واجب تعالیٰ سے نفی اختیارکرکے اس کے ایجاب کااثبات کیا ہے اور ان بے عقلوں نے ذات واجب تعالیٰ وتقدس کو بے کار سمجھا ہے ، اور سوائے ایک مصنوع کے کہ وہ بھی ایجاب سے ہے زمین وآسمان کے خالق سے صادر نہ جان کر حوادث کے وجود