یا نہیں ؟ پھر ان کے قادریت والے حال سے کیا حاصل ؟ سوچو ایسا مجبور وبے بس خدا کس کام کا؟ اور ایسی بے بسی کے ساتھ عدل کا تصور کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے۔
اب ایک نہج سے اور غور کرو! کوئی بھی ذات من حیث ھی ھی قطع نظر صفات کے … جو کہ محض موجود ذہنی ہے … اس سے دنیا کی کسی چیز کو رابطہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ خارج کے اعتبار سے وہ معدوم محض ہے ، اور معدوم محض سے کس کو دلچسپی ہوسکتی ہے، تعارف وشناخت ، محبت وعظمت یا خوف وخشیت جو کچھ پیدا ہوتی ہے ، اس کی بنیاد یہی صفات ہوتی ہیں ، دیکھو! اﷲ کے لئے اگر صفت ربوبیت اور خالقیت نہ ہوتی تو کسی شیٔ کا وجود کیونکر ہوتا ، گویا مخلوق جو حق تعالیٰ کے ساتھ مربوط ہے ، اس کی وجہ یہی صفت ربوبیت وخالقیت ہے ، مخلوق جو حق تعالیٰ کی طاعت وعبادت کا جذبہ اپنے اندر رکھتی ہے ، وہ اس لئے کہ وہاں صفت الوہیت موجود ہے، اس سے جو خائف ولرزاں ہے، وہ اس لئے کہ اسی میں صمدیت، قہاریت اور قدرت مطلقہ کی صفات ہیں ، مخلوق جو اس کی محبت بے حد وحساب رکھتی ہے تو اس لئے کہ اس میں جمال وکمال اور رحمت والطاف کی صفات عالیہ ہیں ، غرضیکہ مخلوق جس جس راہ سے خالق تعالیٰ کے ساتھ مربوط ہے، وہ کوئی نہ کوئی وصف ہے ، اور یہ بالکل بدیہی ہے جس کو ابتدائی عقل بھی بطور علم ضروری کے جانتی ہے کہ بغیر کسی وصف کمال کے کوئی شخص دوسرے سے مربوط ہوہی نہیں سکتا، پھر سوچنے کی بات ہے کہ انکار صفات کے بعد حق تعالیٰ کی محبت ، خوف ، اس کی عبادت وطاعت ، اس کی عظمت وتقدیس کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ پھر دیکھو کہ انسان کتنا بے بس اور بے سہارا ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ اس کو جتنی قوت حاصل ہے وہ تو معلوم ہے اور اس کے اوپر ان ظالموں نے کوئی ایسی طاقت چھوڑی ہی نہیں جو اس کا سہارا بن سکے، پھر اس غریب کا ٹھکانا کہاں ؟ انھوں نے انکار