کے اصول کے مطابق آتی ہے ، کیونکہ ہر عمل کا لازمی نتیجہ عذاب یا ثواب، جب قدرت الٰہیہ سے نعوذ باﷲ خارج ہے ، تو اگر اس کے خلاف نتیجہ کا ظہور ہوتو لازماً اسے خلف فی الوعید کہنا پڑے گا، اور چونکہ حق تعالیٰ کی قدرت ان پر واقع نہیں ہے ، اس لئے خلف مذکور کو ممتنع بھی کہنا ضروری ہوگا۔ معلوم ہواکہ وعیدات عامہ ہوں یا خاصہ، ان میں خلف کے امتناع وامکان کی بحث معتزلہ کے اصول پر آسکتی ہے، اہل سنت کے اصول کے مطابق خلف کی بحث آتی ہی نہیں ، جیسا کہ سابق مکاتیب میں اس کو واضح کرچکا ہوں ۔
پھر خلف فی الوعید کو ممکن مان لیا جائے تو ان کے لحاظ سے کذب بھی ضرور لازم آئے گا ، کیونکہ اعمال کے نتائج ولوازم سے قدرت تو منتفی ہوچکی، اب خدا کے حصے میں کیا رہ گیا ، محض نتیجۂ فعل کی خبر دینا، فرض کروایک عمل کے متعلق عذاب کے نتیجے کی خبر دے دی، بالفرض اگر اس کے خلاف کا ظہور ممکن ہو تو ضرور ہے کہ وہ خبر کاذب ہوجائے ، یعنی جو نتیجہ واقعۃً تھا اس کی خبر نہ دی گئی ، بلکہ اس کے خلاف کی خبر دی گئی ، ظاہر ہے کہ یہ کذب ہوگا۔
پھر یہ بھی قابل غور ہے کہ جب انسانوں کے افعال اختیاریہ کا حسن وقبح عقلی ہے ، اور ان کے خلق وصدور سے قدرت الٰہیہ علیٰحدہ ہے ، اور اس لحاظ سے صدور وخلق میں تلازم ہے ، تو یہ بھی ضروری ہے کہ کسی فعلِ قبیح کا خالق حق تعالیٰ کو نہ مانا جائے، نہ اس پر اس کی قدرت تسلیم کی جائے ، کیونکہ جب خلق ہوگا تو صدور بھی ہوگا، کیونکہ دونوں میں باہم تلازم ہے، لامحالہ یہ تسلیم کرنے پڑے گا کہ حق تعالیٰ سے افعال قبیحہ صادر ہوتے ہیں ، نعوذباﷲ۔ لہٰذا یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ قدرت علی القبائح حق تعالیٰ کو ہے ہی نہیں ، اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر قدرت علی المحاسن بھی نہیں ہے ، بلکہ بطور وجوب کے حق تعالیٰ سے صادر ہوتے ہیں ، دیکھو بات کہاں پہونچی، قدرت منتفی ہوئی