وقبح کا نام امر ونہی ہے ، مطلب یہ ہے کہ کسی فعل کے حسن یاقبح کا فیصلہ کرنے والی تو عقل ہے ، لیکن صرف عقلی ادراک کی بنیاد پر اس کو فرض یا حرام نہیں کہا جاسکتا، جب شریعت اس کے حسن وقبح کااعلان بصورت امر ونہی کردے گی ، تب اس کو حرام یا فرض کہا جائے گا، گویا اصل تو عقلی فیصلہ ہے ، شریعت محض اس کی منادی ہے ، اچھا شریعت نے جب اس کو پکار دیاتو اب جو انسان اس فعل حسن یا قبیح کو وجود میں لاتا ہے ، اس میں ان کے اصول کے لحاظ سے خدا کی قدرت کا دخل نہیں ہوتا، بندہ محض اپنی قدرت سے صادر کرتا ہے ، بلکہ خلق کرتا ہے اور صادر کرتا ہے، لہٰذا ہر عمل کا نتیجہ اس کے ساتھ لازم ہوتا ہے، ایسا لازم کہ حق تعالیٰ اس کو اس سے جدا نہیں کرسکتے ، کیونکہ جب صدور وخلق فعل میں قدرت الٰہیہ موثر نہیں ہے ، تو نتیجۂ فعل میں کیوں موثر ہوگی ، پس لازم ہوا کہ بندہ نے جو کچھ عمل کیا ،اس کی سزا وجزا ء بطور وجوب کے ہو ، یعنی حق تعالیٰ کو اس کے خلاف پر قدرت نہ ہو ، چنانچہ معتزلہ اسی کے قائل ہیں کہ تعذیب مجرم اور تنعیم مطیع حق تعالیٰ کے ذمہ لازم ہے ، میرا خیال ہے کہ تعذیب وتنعیم کے عمل کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی زحمت ان لوگوں نے بلا ضرورت کی ہے ، ظاہر ہے کہ جب اعمال کاخلق وصدور دونوں بندے کے اختیار وقدرت سے ہوا، تو بدیہی امر ہے کہ اس کے لوازم ونتائج بھی بندے ہی کے خلق وکسب سے ہوں گے ۔ حق تعالیٰ کی قدرت جب افعال ہی پر نہیں ہے ، جو اصل ہیں تو ان کی فرع یعنی لوازم ونتائج پر بھی نہ ہوگی ، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ فلاں فلاں امر خدا کے ذمے واجب ہیں ، ہاں واجب کا اگر یہ مطلب ہوکہ خدا اس پورے منظر کا صرف ایک تماشائی ہے ، اس کی قدرت کو اس کارخانہ میں کوئی دخل نہیں ، تو درست ہوگا، اور شاید ان کی مراد یہی ہو۔
یہیں سے یہ مسئلہ بھی صاف ہوگیا کہ وعیدات عامہ میں خلف کی بحث انھیں