میں صاحب فتح الباری نے ایک جگہ نقل کیا ہے کہ اسے تمنا تھی کہ کاش وہ الرحمن علی العرش استویٰ، کو قرآن سے نکال دینے پر قادر ہوتا، لیکن وہ لوگ جب ایسا نہ کرسکے تو اس میں تاویل وتحریف کا دروازہ کھولا، اورا یسے مطالب اختراع کئے کہ سطحی عقل اور سطحی علم والا تو انھیں قبول کرلے، مگر قرآن وسنت اور آثارِ سلف پر نظر رکھنے والا ، اس کو محض تحریف سمجھے گا، یہ کتنا زبردست مفسدہ ہے کہ قرآن کے مدلولات کو توڑا جائے ، ان کی بے جا تاویلات کی جائیں ، اور ان لوگوں کی پیروی کی جائے جن کے بارے میں یحرفون الکلم عن مواضعہ وارد ہے،پھر دوسری خرابی اس کے ذیل میں یہ بھی پیدا ہوئی کہ جو لوگ ان کی تردید انھیں کی زبان واصطلاح میں کرنے اٹھے ، وہ بھی اکثر جگہوں میں انھیں جیسی مشکوک اور نامعتبر باتیں کرنے لگے، ہمارا علم کلام اس کی مثالوں سے لبریز ہے ، لیکن یہ تاویلات اتنی پھیلیں کہ رفتہ رفتہ اذہان بالعموم ان سے متاثر ہوگئے ، حتیٰ کہ جو لوگ فلسفۂ اعتزال کی تردید قرآن وسنت کی زبان میں کرتے ہیں ، وہ بھی غیر شعوری طور پر کہیں کہیں اسی قسم کی باتیں کرنے لگتے ہیں ، جیسی معتزلہ وغیرہ سے صادر ہوتی ہیں ، یہ موضوع ذرا نازک ہے اور تفصیل طلب بھی اس لئے تحریر میں لانا مناسب نہیں سمجھتا ، کبھی ملاقات ہوگی تو زبانی بتاؤں گا۔
معتزلہ کو مسئلہ صفات سے تو فراغت ہوگئی ۔ اب آؤ حق تعالیٰ کے آمر وناہی ہونے کا مسئلہ بھی ان کے اصول کی روشنی میں سمجھ لیں ، کیا بتاؤں عجب سفسطے ہیں ، سوچنے سے بھی طبیعت اباء کرتی ہے، لکھنا تو بڑی بات ہے ، لیکن نقل کفر ہے ، مجبوراً لکھتا ہوں ۔
معتزلہ نے جب عقل کو حاکم مان لیا، تو اس کی بنیاد پر حق تعالیٰ کے ذمے انھوں نے واجب قرار دیا کہ وہ افعال کے حسن وقبح کو ظاہر کردیں ، اسی اظہار حسن