چکے ہو کہ معتزلہ نے کوئی ایسا شرعی حکم یا ایسی شرعی خبر ماننے سے انکار کردیا ہے ، جو ان کے دائرۂ عقل سے خارج ہو، اسی بنیاد پر انھوں نے یہ خیال جمایا کہ صفات کے جو کچھ معانی ہم جانتے اور سمجھتے ہیں ، ظاہر ہے کہ اس کے ماسوا اور کوئی مطلب ہوہی نہیں سکتا، اور انھیں معانی اور مفاہیم اور کیفیات وتفصیلات کے ساتھ اگر ان صفات کو حق تعالیٰ کے لئے ثابت کیا گیا ، تو تشبیہ لازم آئے گی جو حق تعالیٰ کی جناب میں عیب ہے، اس لئے تفصیلاً انھوں نے ہر ایک صفت کی نفی کی ، اور جس کی نفی صراحۃً نہیں کرسکتے تھے اس میں ایسی تحریف کی کہ اس میں اور نفی میں صرف لفظی فرق رہ گیا، جیساکہ تم وجود ، حیات، علم اور قدرت کے بارے میں ان کا نظریہ پڑھ چکے ہو۔ یہ بات جب ان کے نزدیک بطور اصول موضوعہ کے طے ہوچکی ، تو اب انھوں نے قرآن وحدیث کارُخ کیا ، انھیں قدم قدم پر ایسا محسوس ہواکہ قرآن وحدیث کی تصریحات، ان کے مفروضات کی شدت سے تردید کررہی ہیں ، اس صورت حال میں ان کے سامنے دوراہیں تھیں ، یا تو اپنے عقلی مفروضات سے دستبردار ہوکر خلوص سے قرآن وسنت پر ایمان لاتے ، یا پھر بالکل انکار کرکے کافر مجاہر ہوتے، یہ دونوں راہیں مشکل تھیں ۔ پہلی صورت میں حاکمیت عقل کے ہاتھ سے نکلتی، جس کی اجازت ان کا کبر نفس نہیں دیتا۔ اور دوسری راہ اختیار کرتے تو اس وقت کا سب سے طاقتور معاشرہ ان کا دشمن ہوجاتا، مجبور ہوکر انھوں نے الٹی سیدھی بے تحاشا تاویلات وتوجیہات کا دروازہ کھول دیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سی گمراہ ٹولیاں وجود میں آگئیں ، احادیث کے سلسلے میں تو انھیں قدرے آسانی تھی ، جو حدیث ان کی سمجھ میں نہیں آئی ، اس کے ذات نبوی کے ساتھ انتساب ہی کا انکار کردیا، لیکن قرآن میں ایسا کرنا ممکن نہ تھا ، گوکہ ان کے دلوں میں اس قسم کی بات بھی آئی تھی ، چنانچہ معتزلہ کے ایک پیشوا جہم بن صفوان کے بارے