رائے پیش کی ، انھیں کی برادری کے دوسرے فرد نے اس کو اسی عقل کی رو سے رد کردیا، اسی روگ نے پورے فلسفہ کو شکوک و اوہام کا مجموعہ بنادیا ہے، اکبر کاشعر تم نے برمحل نقل کیا ہے ، مگر غلط نقل کیا ہے ، صحیح اس طرح ہے۔ ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھارہا ہے اور سرا ملتا نہیں
یہ تو بنیادی بات تھی ، ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی غلط ہے، تو دیوار کا کیا حشر ہوگا،
خشت اول چوں نہد معمار کج تاثریا می رود دیوار کج
عقل کو حاکم مطلق بنانے کا نتیجہ تو تمہارے سامنے ہے ، لیکن ذرا دقت نظر سے کام لو ، تو صاف نظر آئے گا کہ ان کے اصول کے مطابق نعوذ باﷲ حق تعالیٰ کا وجودکوئی واقعی چیز نہیں ہے ، بلکہ ان کی عقلوں نے گڑھ گڑھا کر ایک چیز کا نام واجب الوجود رکھ دیا ، یا اس کا کچھ منفی قسم کا تعارف کرادیا، اور کہہ دیا کہ اسی کو خدا مان لو، پھر جب چاہتے ہیں اپنی عقل سے اس کے تعارف میں ترمیم وتنسیخ کرتے رہتے ہیں ، حاکم مطلق تو خدا کو ہونا چاہئے ، لیکن انھوں نے حاکم مطلق اپنی عقلوں کو بنالیا ۔ خدارا بتاؤ کہ ان کے گھڑے ہوئے ذہنی اور عقلی خدا میں جو ہر قسم کی صفات سے خالی ہے اور بت پرستوں کی ہاتھ سے تراشی ہوئی مورتیوں میں کیا فرق ہے ؟ بلکہ یہ گروہ بت پرستوں سے بدرجہا بدتر ہے ، بت پرست تو خوبصورت مجسمے ڈھالتے ہیں ، کچھ نہیں تو ان کے حسن وجمال کی طرف طبیعت انسانی کو کشش ہوتی ہے، اور ان عقلمندوں نے جس خدا کو تراشا ہے ، وہ محض ذہنی مفروضہ اور ہر قسم کے حسن وجمال اور جلال وکمال سے قطعی خالی ! بھلا ایسے خدا کی عبادت کون کرے، اور ایسے خدا کی کیا ضرورت ہے ؟
اب آؤیہ بھی دیکھ لیں کہ انکار صفات کے بعد معتزلہ کا حشر کیا ہوا؟ تم یہ دیکھ