کی کاوشیں اور قربانیاں اس مسئلہ کو بہت واضح کرچکی تھیں ، ان کے لئے انکار صفات کا مسئلہ پھر دشوار ہوگیا ، ان کی ذہانتوں نے ایک اور چال چلی ، اور صفات کو عین ذات قرار دیدیا، کچھ معتزلہ نے یہ راہ اختیار کی ، اور کچھ احوال کے راستے پر چل پڑے ، یہ ساری سرگردانی کیوں پیش آئی ؟ اس لئے کہ انھوں نے عقل انسانی کو حاکم مطلق قرار دیا اور پریشان ہوئے ۔ کوئی مسئلہ آج تک بے چاروں کے نزدیک صحت قطعی کا درجہ نہ پاسکا، ایک عقل مفروضات کا کوئی گھروندا بناتی ہے ، تو دوسرے کی عقل اسے توڑ پھوڑ کر برابر کردیتی ہے، حضرت سعدی ؒ نے خوب فرمایا ہے ۔ ؎
دگر مرکب عقل را پویہ نیست عنانش بگیرد تحیر کہ ایست
دریں بحر جز مرد داعی نہ رفت گم آں شد کہ دنبال راعی نہ رفت
کسانے کہ زیں راہ برگشتہ اند برفتند وبسیار سرگشتہ اند
خلاف پیمبر کسے رہ گزید کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
مپندار سعدیؔ کہ راہِ صفا توان رفت جز بر پئے مصطفی
اب تک کی گفتگو سے معلوم ہواکہ فلاسفہ ومعتزلہ کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے عقل انسانی کو حاکم مطلق قرار دیا ہے ، لیکن وہ تمام عقلوں کو کسی ایک بات پر متفق نہ کرسکے، بات یہ ہے کہ جس طرح انسان کا وجود اور اس کی ذات محدود ومقید ہے، اسی طرح اس کی عقل بھی محدود ومقید ہے ، انھوں نے اس عقل مقید کے ماسوا کسی اور چیز کو معیار ماننے سے انکار کردیا ، ظاہر ہے کہ یہ بالکل خلاف عقل ہے ، پھر یہ بھی سوال لاینحل ہے کہ بے شمار انسانوں کی بھیڑ میں کس انسان کی عقل کو معیار بنایاجائے، وہ کون ساعاقل ہے جس کی عقل سب پر حجت ہو، یعنی یہ تسلیم کرلیاجائے کہ اس کی عقل سے بڑھ کر کسی کی عقل نہیں ہوسکتی، انبیاء سے تو یہ دامن بچاتے ہیں ، پھر جس نے کوئی