ان کو جدید تو سیعات کے دائرہ میں لایا جاسکے ، علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ امکان بالذات اور امتناع بالغیر کی اصطلاح بوعلی سینا کی اختراع ہے ، متقدمین فلاسفہ اس اصطلاح سے آشنا نہ تھے ، شاہ صاحب فرماتے ہیں :
قلت : إن الامکان بالذات والاستحالۃ بالغیر من مخترعات ابن سینا ، وکان الشیٔ عند قدماء ھم إما واجباً أو ممکناً ، وکان الواجب عند ھم مایکون ازلاً وابداً ، والممکن مایوجد مرۃ وینعدم اخریٰ ومالا یوجد ازلاً وابداً فھو ممتنع عندھم ھٰکذا صرح بہ ابن رشد، فلما جاء ابن سیناء ورأی أن بعض قواعدھم لایوافق الشرع أراد أن یتخذ بین ذٰلک سبیلا فاخترع الامکان بالذات والمستحیل بالغیر ۔( فیض الباری ،ج:۴، ص: ۵۱۴)
تحریف وتاویل کا یہ عمل فلاسفۂ متاخرین اور معتزلہ دونوں کرتے رہے ، یعنی ماجاء بہ الرسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی عقلی میزان پر تولتے رہے ، دونوں میں فرق ہوتا ہے … اور ایسا بہت ہوتا… تو شرعیات میں ترمیم وتحریف بیشتر ، اور فلسفیات میں کمتر کرتے رہے۔
صفات باری تعالیٰ کو بھی انھوں نے اسی میزان پر تولا، ظاہر ہے کہ جب ذات باری تعالیٰ جل مجدہٗ ہی عقلی ادراک سے ماوراہے ، اور اسے انھوں نے مجبور قرار دے کر تسلیم کیا ہے ، تو صفات کے سلسلے میں بجز انکار کے ان کے پاس اور چارۂ کار ہی کیا تھا ، انھیں مانتے تو ان میں کتنی تاویل کرتے ، صفات تو کثیر ہیں ، پھر بیچاروں کی ذہانت کتنا ساتھ دیتی، ایک ہی بار کھٹ سے انکار کردیا اور مخمصہ ختم ہوگیا، لیکن فلاسفہ کا یہ گروہ اس وقت سامنے آیا، جب صفات شہرہ بہت زیادہ ہوچکا تھا ، اور علماء اہل سنت