ترجمہ:حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت جب افلاطون کو پہونچی … جو ان بد نصیبوں کا سب سے بڑا سردارہے … تو اس نے کہا : ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں اور ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے۔ اس بے وقوف کو چاہئے تھا کہ ایسے شخص کو جو مُردوں کو زندہ کردیتا ہے ، اور مادر زاد اندھے کو بینا،اور ابرص کو اچھا کردیتا ہے، جو (ان کی ) حکمت سے قانون کے ناممکن ہے ، پہلے ان کو دیکھتا اور ان کے حالات دریافت کرتا ( پھر جواب دیتا) بغیر دیکھے جواب دینا کمال درجہ دشمنی اور کمینہ پن ہے۔ فلسفہ کااکثر حماقت ہے تو اس کا کل بھی حماقت ہے ، اس لئے کہ کل کا حکم اکثر کا حکم ہے۔
(مکتوب:۲۶۶، دفتر اول ،ص: ۴۶۹)
پس ان عقلمندوں نے تو شرائع کا مقابلہ شروع سے انکار کے ساتھ کیا ، اس لئے اس ایک بات کے بعد شریعت کا کوئی اور مسئلہ ان کے لئے درد سر نہیں بنا، لیکن شریعت محمدیہ اور نبوت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ہیبت انبیاء سابقین سے بہت زیادہ ثابت ہوئی، کیونکہ وہ حضرات محدود زمانہ اور مخصوص اقوام کے لئے ہوتے تھے ، اور یہ نبوت قیامت تک کے لئے اور تمام اقوام عالم کے لئے ہے ، اس لئے اس کا مقابلہ انکار کے ساتھ آسان نہ تھا ۔ یہ مسئلہ فلاسفہ کے تلامذہ کے لئے خاصا دشوار ہوگیا ، لیکن ذہانتوں نے ہمت نہیں ہاری ، جوڑ توڑ کاعمل جاری رہا ، زیادہ تر تو ایسا ہواکہ شریعت کے اصطلاحی الفاظ کو تسلیم کرتے رہے ، لیکن ان کے معانی کو تاویل وتحریف کا نشانہ بنایا ، تاکہ اصل الفاظ پر ایمان ان کے لئے وقایہ بنارہے اور معانی کی تحریف سے فلسفیانہ مفروضے باقی اور سلامت رہیں ، اور کمتر یہ بھی ہواکہ اصطلاحات فلسفیہ میں توسیع اور گنجائش پیدا کی ، تاکہ بعض قطعی شرعیات جن میں کسی طرح تاویل وتحریف ممکن نہ تھی ،