وہ ان غیبی حقائق کے اقرار پر مجبور ہوئے ، مھر جب تشریحات پر آتے ہیں تو اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہے : إِذَا جَائَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُ اﷲِ وَاﷲُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاﷲُ یَشْھَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ۔خدا کو مانا، مگر کیامانا؟ جبکہ ہر قسم کے اوصاف وکمال اور اختیار وقدرت سے خالی مانا۔ رسول کو مانا، لیکن کیا مانا؟ جبکہ وحی اور فرشتوں کو تسلیم نہیں کیا ، بھلا یہ ماننا بھی کچھ ماننا ہے کہ من مانی تشریحات وضع کرکے اسی پر اصرار کریں ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں یہی خیال جاگزیں ہے کہ عقل معیار کامل ہے، اور دوسری کوئی چیز معیار نہیں ہے ، ارسطواور افلاطون وغیرہ نے انبیاء سابقین کا تو اتباع کیا نہیں ، اور نہ ان کی لائی ہوئی شریعت کاالتزام کیا ، اس لئے ان کو یہ مخمصہ پیش نہیں آیا کہ فلاں آیت دائرۂ عقل میں نہیں آتی، یا فلاں شرعی حکم خلاف عقل ہے ، اس لئے انکار یا تاویل کی راہ اختیار کرو ، وہ تو اپنے کو بے نیاز کہتے ہیں ۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ نے مکتوبات شریف میں ایک جگہ افلاطون کا ایک قول نقل کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ :
’’ دعوت نبوت حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام چوں بافلاطون … کہ کلاں تر ایں بے دولتاں بودہ … رسید ، گفت کہ نحن مھتدون لاحاجۃ بنا إلیٰ من یھدینا، زہے سفیہ ! بایستے ،شخصیکہ احیاء اموات می نماید ابراء اکمہ وابرص می کندخارج از طور حکمت ایشاں است ، اور ا می دید وتفطن احوال می کرد ، نادیدہ جواب دادن از کمال عناد وسفاہت است ۔ ؎
فلسفہ چوں اکثرش باشد سفہ پس کل آں
ہم سفہ باشد کہ حکم کل حکم اکثر است