یہ لوگ بالاستقلال ثابت مانتے ہیں ، یعنی نفس ماہیت جو وجود خارجی کے انضمام سے خالی ہے ، یہ ان کے خیال میں ایک حقیقت ثابتہ ہے ، وہی ماہیت مطلقہ ان کے نزدیک واجب تعالیٰ کا مصداق ہے، اور ذات ، ماہیت اور وجود یہ سب عین واحد ہیں باصطلاح فلاسفہ ! پھر تم دیکھو کہ وہ ماہیت مطلقہ من جمیع الجہات واحد ہے ، اس پر انھوں نے یہ مفروضہ وضع کیا کہ الواحد لایصدر عنہ إلا الواحد، لہٰذا ثابت ہواکہ اس سے ایک ہی چیز صادر ہوئی ہے ، اس کا نام انھوں نے اپنی عقل ناتمام سے عقل اول رکھا۔ اورپھر اس کے بعد عقول کا ایک سلسلہ شروع کرکے عقل عاشر پر دم لیا، اب یہ سارا عالم عقل عاشر کی کرشمہ سازی ہے ، اور یہ سب قدیم ہیں ، نیز ہر ایک کا صدور دوسرے سے ارادۂ واختیار کے ساتھ نہیں ، بلکہ بطور اضطرار ووجوب کے ہوا ہے ، خیال کرنے کی بات ہے کہ ان مجبور خداؤں کا کیا حاصل ؟ ایسے ہی مضطر وبے بس خدا ماننے ہیں ، تو سلسلہ اگر ہیولیٰ اور صورت جسمیہ پر تمام کردیا جائے ، تو کیا حرج لازم آتا ہے ، ان دونوں کی تو عالم کو ضرورت ہے ، لہٰذا ان سے اوپر والے بے کار اور زائد ہی ہیں ، سچ پوچھو تو بات یہی ہے کہ ہیولیٰ اور صورت جسمیہ کے علاوہ انھوں نے درحقیقت کسی اور وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے ، مگر انبیاء کی دعوت کی اہمیت نے انھیں اس منافقت پر مجبور کیا ، اور ان سے اس قسم کی فضول اور لایعنی باتیں صادر ہوئیں ، یہ انبیاء کی ہیبت ہی کااثر ہے کہ انھوں نے صرف خدا ہی کا وجود نہیں تسلیم کیا ہے ، بلکہ دوسروں کو دکھانے کے لئے انبیاء کو بھی مان لیا ہے، اپنے لئے نہ سہی ، عوام الناس ہی کے لئے سہی ، لیکن یہ محض دکھاوا ہے ، جب ان سے نبی کی تعریف اور نبوت کی حقیقت دریافت کی جاتی ہے تو بہکی بہکی باتیں شروع کردیتے ہیں ،تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے ، ورنہ بتاتا کہ نبوت کی حقیقت ان کی دانست میں کیا ہے ، در حقیقت یہ خوف وہیبت کا اثر تھا ،جس کے باعث