لیکن بے شمار عقلی اختلافات کے باوجود ، ان گنت واقعی تناقضات کے باوجود یہ گروہ اس بات پر متفق ہے کہ معیار حق وصواب عقل ہی ہے ، اس بنیاد پر جو مفروضے انھوں نے وضع کئے ہیں ، غور سے دیکھو گے تو اس گھروندے میں صفات کا مسئلہ تو خیر بعد کی چیز ہے ، خود اﷲ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہی ضروری باقی نہیں رہتی ، کیونکہ ان کے خیال میں ہیولیٰ اور صورت جسمیہ قدیم بالنوع ہیں ، ظاہر ہے کہ پورے عالم کی ترکیب انھیں دونوں سے ہے ، تو عالم قدیم ہوا، اور قدیم کسے کہتے ہیں ؟شیٔ لااوّل لہ ۔ پھر بتاؤ اس جھنجھٹ کی کیا ضرورت کہ خدا کو بھی تسلیم کیا جائے ، آخر جو چیز قدیم ہے وہ خود واجب الوجود ہے ، اس کے لئے دوسرے واجب الوجود کی کیا ضرورت ہے ؟ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ فلاسفہ بھی ذات خداوندی کو تسلیم کرتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ قرون سابقہ میں انبیاء کاوجود مسلسل رہا ہے ، ثم أرسلنا رسلنا تترا، اس پر گواہ ہے،اور ہر ایک نبی نے خدا کی حقانیت اوروحدانیت کا زور وشور سے اعلان کیا ہے ، پھر یہ بھی ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات بطور علم ضروری کے پیوست ہے … جس کو خارج کی کسی طاقت سے مٹایا نہیں جاسکتا… کہ حق تعالیٰ کی ذات موجود اور واحد ہے ، تو ایک طرف تو وہ اپنی فطری آواز سے مجبور ، دوسری طرف انبیاء کی دعوت کا تسلسل وتواتر ! انھوں نے مجبوراً ذات باری تعالیٰ کا اقرار کیا ، لیکن بغور دیکھو کہ ان کی اقرار کردہ ذات کی حقیقت کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ ذات من حیث الذات ہے ، اس میں کوئی صفت نہیں ہے ، حتیٰ کہ وجود بھی ایک صفت ہے ، اس کاانتساب بھی باری تعالیٰ کی جناب میں نہیں ہوسکتا۔
فلاسفہ کے نزدیک اشیاء کے تین درجے ہیں ۔ ماہیت من حیث الماہیت، ماہیت من حیث الوجود الخارجی، ماہیت من حیث الوجود الذہنی ، ان میں سے ہر ایک کو