رہے تھے اور ان کو بزرگوں کے پاس بھی بھیجتے تھے اسی کی مناسبت سے حضرت مفتی صاحب نے لکھا کہ ہاں صاحب ! حاصل تو نہ عمارت کا ہے نہ عبارت کا، واقعی اگر قبول نہ ہوتو کسی کا کچھ حاصل نہیں ۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ یہ عبارتیں قبول ہوں تاکہ وقت اور محنت ضائع نہ ہو ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۲؍ذی الحجہ ۱۴۱۲ھ
(۱) ایک ولیمہ کی تقریب کا ذکر ہے ۔ (۲) مشہور بزرگ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڈھی علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد میں نے دو مضمون لکھے تھے جو مجلہ المآثر کے ابتدائی دو شماروں میں شائع ہوئے تھے، انہیں حضرت ماسٹر صاحب مدظلہ نے بہت پسند فرمایاتھا،ملاحظہ ہو مجلہ المآثر ج: ۱ شمارہ : ۱۔۲ (۳) یہ تحریر ماہنامہ دارالعلوم کے الاحسان نمبر میں شائع ہوئی ہے، اور اب کتابی شکل میں فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔(۴) خلیفہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمۃ
٭٭٭٭٭
مخدومی ومکرمی حضرت اقدس ماسٹر صاحب ! زید مجدکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مزاج گرامی !
عزیزم مولوی محمد ہاشم سلّمہ بخیر وعافیت یہاں پہونچ گئے ، بہت خوشی ہوئی اور مزید مسرت اس سے ہوئی کہ میرے خط نے آپ کی جناب میں حسن قبول پایا۔ حضرت! یہ تو صرف عبارت آرائی ہے جو میں نے سیکھ رکھی ہے، بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق رہا ہے، ہر قسم کی کتابوں کے مطالعہ کا چسکا لگا ہوا ہے۔ ادبی کتابوں کے مطالعہ نے عبارت آرائی کا فن سکھا دیا ،بزرگوں کی کتابوں نے بزرگوں کے احوال و ملفوظات سے واقف کرایا،بس انہی دونوں کے سہارے سجی سجائی عبارتیں آپ بزرگوں کے سامنے پیش